• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں جنوری سے ستمبر تک ایک لاکھ 24ہزار کے قریب افراد سگ گزیدگی کا شکار ہو ئے ہیں۔ محض کراچی میں 12ہزار سے زیادہ شہریوں کو کتوں نے کاٹا اور 15سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ صرف سول اسپتال حیدر آباد اور جام شورو میں سگ گزیدگی کے 6ہزار سے زیادہ مریض لائے گئے۔ ضلع قمبر میں 12ہزار افراد کو کتوں نے کاٹا۔ یہ ایک لاکھ 24ہزار افراد وہ ہیں جنہوں نے سندھ کے 29اضلاع کے سرکاری و غیر سرکاری اسپتالوں اور کلینکوں میں جاکر ویکسین لگوائی، بے شمار افراد ایسے ہوں گے جو ویکسین نہیں لگوا سکے اور انہوں نے تڑپ تڑپ کر جان دیدی، لوگوں نے اپنے پیاروں کو اپنے سامنے اذیت ناک تکلیف میں مبتلا ہوکر مرتے دیکھا۔ گزشتہ دنوں شکار پور سندھ میں اینٹی ریبیز ویکسین نہ ملنے پر ایک بچے نے ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ بچے کے والد نے انٹرویو میں بتایا کہ وہ اپنے بچے کو شکارپور، سلطان کوٹ اور کئی دیگر جگہوں پر لے کر گیا مگر کسی نے علاج نہ کیا۔ سندھ کے وزیر اطلاعات و محنت کا یہ بیان کہ کتے کے کاٹنے سے بچے کی ہلاکت کے ذمہ دار والدین ہیں، سمجھ سے باہر ہے۔ ارے بابا! شہر میں جگہ جگہ کچرا اور گند پڑا ہے، جو آپ کی حکومت نہیں اٹھا رہی۔ بلدیاتی ادارے اپنا کام نہیں کر رہے، پورا کراچی اور سندھ آوارہ کتوں سے بھرا پڑا ہے، آوارہ کتوں کے غول شہریوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں اور آپ کہتے ہیں کہ بچے کی موت کے ذمہ دار والدین خود ہیں۔ کیا آپ نے عوام کو آگاہی دی کہ جب کتا کاٹ لے تو زخم کو فوری طور پر پانی اور صابن سے دھونا چاہئے؟ اس سے انسان موت کے منہ میں جانے سے بچ سکتا ہے۔ کیا کسی نے یہ آگاہ کیا کہ ایسا کتا جس کو ویکسین نہ لگی ہو اور خصوصاً آوارہ اور پاگل کتا کاٹ لے تو اس کی علامات انسان میں چھ ہفتوں میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جن میں بخار، سر درد، ٹانگوں کا درد، جلن اور گلا بند ہو جانا ہے۔ انسان پانی تک بھی نہیں نگل سکتا۔ آج پاکستان کے بے شمار علاقوں میں سگ گزیدگی کا شکار ہونے والے افراد کے لئے ویکسین دستیاب نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ویکسین بھارت سے منگوائی جاتی تھی جب سے بھارت اور پاکستان کے حالات کشیدہ ہوئے ہیں، یہ ویکسین آنا بند ہو گئی ہے۔ یورپ کی ویکسین دنیا میں بہترین سمجھی جاتی ہے مگر وہ خاصی مہنگی ہے۔ بھارت سے بھی جو ویکسین ریبیز کی آ رہی ہے وہ ایک ہزار روپے کا ایک ٹیکہ ہے جبکہ چین سے آنے والی ویکسین کے بارے میں ڈاکٹروں کے کچھ تحفظات ہیں۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ آج بھی ہمارے ملک کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کتا کاٹے تو پیٹ میں 14انجکشن لگتے ہیں جبکہ اب صرف 4انجکشن بازو یا پیٹھ پر لگائے جاتے ہیں۔ کسی غریب کو کتا کاٹتا ہے تو وہ 4ہزار روپے کی ویکسین اور اے ٹی ایس انجکشن کی قیمت نہیں دے پاتا چنانچہ اکثر ٹوٹکوں کا سہارا لیتا ہے۔ کوئی لال مرچیں زخم پر ڈالتا ہے، تو کوئی کچھ اور۔ کراچی بلکہ پورے ملک میں آج سے چند برس پہلے تک کتا مار مہم سال میں ایک سے تین بار خصوصی طور پر چلائی جاتی تھی، اب تو کراچی کچرے کا شہر بن چکا ہے، اس غلاظت کی وجہ سے کتوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے بلکہ اب بعض لوگ ان کی تعداد لاکھوں میں بتاتے ہیں۔ ملک بھر میں 25لاکھ کے قریب آوارہ کتے ہیں اور ان میں سے 10سے 15لاکھ کتے بلاوجہ لوگوں کو کاٹتے پھرتے ہیں، اگر عوام کو کتوں سے بچانا ہے تو فوری طور پر کتا مار مہم پورے ملک میں شروع کرنا ہوگی۔ کتا صرف کاٹتا نہیں بلکہ اس سے بے شمار مفید کام بھی لئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کتوں کی قوتِ شامہ انسانوں کو بیماریوں اور مشکلات سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ کتے میں سونگھنے کی حس انسانوں کے مقابلے میں کئی لاکھ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں ممنوعہ اشیا کو تلاش کرنے میں کتوں سے مدد لی جاتی ہے۔ کتا بارودی سرنگوں تک کو تلاش کر لیتا ہے۔ کئی انسانوں کے اندر کینسر کے مرض سے کتے نے پہلے سے آگاہ کر دیا۔ اس حوالے سے کئی واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جاپان میں بیماریوں کی تشخیص میں کتوں سے کام لیا جا رہا ہے خصوصاً مثانے، بڑی آنت، مثانے اور پھیپھڑوں کے کینسر کی کتا سونگھ کر بروقت تشخیص کر لیتا ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض حالات میں یہ تشخیص 90فیصد تک درست ہوتی ہے۔ سرطان کی رسولیوں میں ایسی بو ہوتی ہے جو کتا سونگھ کر مخصوص اشاروں یا حرکات سے بتا دیتا ہے۔ کتا شوگر کے مریضوں کی شوگر کی کمی و بیشی کو بھی محسوس کر لیتا ہے۔ ہمارے ہاں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز میں ایک ڈرگ سنٹر ہے جہاں کتوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ انہیں مجرموں کو کیسے پکڑنا ہے۔

سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں کتوں سے بڑے مفید کام لئے جا رہے ہیں تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ دوسرے ہمارے ہاں جو لاکھوں کی تعداد میں آوارہ کتے ہیں، ان سے آخر کیسے نجات حاصل کی جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر شہر کے بلدیاتی ادارے سال میں کم از کم ایک دفعہ ضرور کتا مار مہم شروع کیا کریں۔ دوسرا، گھروں میں رکھے جانے والے کتوں کو ویکسین لگوائی جائے۔ پچھلے دنوں ہم کراچی گئے تو دیکھا کہ شہر کی کوئی گلی اور بازار ایسا نہ تھا جہاں کتے موجود نہ ہوں۔ سڑکوں پر آوارہ کتوں کا راج تھا اور اسکولوں کے پاس بھی خاصی تعداد میں ہم نے آوارہ کتے دیکھے۔ اگر ان کتوں کو ختم نہ کیا گیا تو پھر لوگوں کو اپنے پیاروں کو اذیت ناک موت میں مرتے ہوئے دیکھنا پڑے گا اور اس کی ذمہ دار صرف حکومت ہوگی۔

تازہ ترین