’’ہال سے نکلتے ہوئے اربابِ علم و ادب کہہ رہے تھے کہ جناب وائس چانسلر نے....یونیورسٹی کو حقیقی معنوں میں علم و تحقیق کا گہوارہ بنا دیا‘‘۔ یہ بات صف اول کے ایک دانشور نے لکھی۔ شکر ہے ’’ہال‘‘ سے نکلتے کہا ’’حال‘‘ سے نکلتے ہوئے نہیں۔ جو ہمیں معلوم ہے وہ یہ کہ یونیورسٹیاں بڑھ گئی ہیں اور وی سی نہیں ملتے گویا کہیں کہیں وی سی کے بجائے ’’وی سی آر‘‘ ہی سے کام چلانا پڑتا ہے۔ وہ کیا خوبصورت مصرع ہے حالی کا کہ ’’دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت‘‘ خیر حالی کو تو یہ آواز چاہِ یوسف سے آئی، مگر ہمیں یہ صدا یونیورسٹیوں سے آتی ہے کہ جہاں تعلیم دوست تھوڑے ہیں اور ’’بھائی‘‘ بہت۔ بہرحال ہم اپنے محترم کالم نگار کو دادِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ ان کی چشم بینا تیرگی میں سے دیکھ لیتی ہے، ایک ہماری آنکھ ہے کہ کم بخت کو خوردبین اور دوربین سے بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں، جو وائس چانسلرز یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا سیل اور وکلاء ٹیم کی بیساکھیوں کے سہارے منزل پالیں گے، ان کیلئے بس اتنا ہی کہیں گے کہ وہ ضرورت سے زیادہ سیانے ہیں۔
’’یونیورسٹی‘‘ کی اصطلاح جب 1088ء میں آئی تو اٹلی کے شہر بولوگنا میں ساتھ ہی ریسرچ، خودمختاری اور جدت نے بھی قدم رکھا، اس سے قبل تعلیمی معاملات مذہبی درسگاہوں سے منسلک تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بات 1088ء سے چلی کیا وہ 2019ء میں بھی پاکستان تک نہیں پہنچی؟
شہر اقتدار کے ایک سابق وی سی دوست لکھتے ہیں ’’سرکاری جامعات مکمل طور پر معیشت کے گرداب میں گھر چکی ہیں... اگر فوری مدد نہ کی گئی تو کتنی ہی جامعات معیشت کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں آ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی‘‘۔ ہم ان سے اتفاق کرتے اور اپیل کرتے ہیں کہ صدرِ پاکستان، وفاقی وزیر شفقت محمود، چانسلرز، پروچانسلر، چیئرمین ایچ ای سی اور سربراہان صوبائی ایچ ای سیز تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے یونیورسٹیوں کو مسائل سے باہر نکالیں۔ افسوس کہ 18ویں ترمیم کے بعد کے پی اور بلوچستان اپنی صوبائی ایچ ای سیز ہی نہیں بنا پائے۔
جہاں تک یہ بات کہ جامعات معیشت کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں ہیں، وہاں ایک بات یہ بھی کہ جامعات نے معیشت کو بے رحم تھپیڑوں سے بچانے کی کوشش بھی کب کی؟ ایک وائس چانسلر یونیورسٹی تقریباً ساڑھے چھ لاکھ باقاعدہ ماہانہ تنخواہ اور الاؤنسز ڈال کر دس لاکھ ماہانہ سے زیادہ میں پڑتا ہے تو بڑی جامعات کے کتنے وائس چانسلرز نے یونیورسٹی بیسڈ انٹر پرنیور شپ ایکوسسٹم (U-BEEs) کو فروغ دینے میں عقل سلیم کا سہارا لیا؟ حالانکہ ڈاکٹر طارق بنوری نے چیئرمین ایچ ای سی کا چارج لیتے ہی یونیورسٹیوں کو کہا کہ انٹر پرنیور شپ کی جانب قدم بڑھائیں، اسی میں بقا ہے۔ امریکی یونیورسٹیاں اسی پر انحصار کرتی ہیں۔ البتہ قصور حکومتوں کا بھی ہے کہ جن یونیورسٹیوں کو کئی ماہ مستقل وی سی نہ ملے گا، ان کو دوبارہ اٹھنے میں کئی سال لگیں گے، حال ہی میں جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی کا اسی حکومت میں حشر نشر ہوا، پچھلی حکومت میں وسطی پنجاب کی ایک گروئنگ یونیورسٹی کے ساتھ ایسا ہوا۔ یونیورسٹیوں کے نام لئے بغیر بتا دوں کہ پروچانسلر پنجاب نے ان دونوں کے بگاڑ کے مابین مقابلہ ضرور سمجھتے مگر حل نکالنے سے قاصر ہیں۔ کے پی والے پریشان ہیں کہ اسی پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں ہائر ایجوکیشن کا پرسانِ حال تھا، اب نہیں۔ سندھ کے ایچ ای سی کے دوبارہ بن جانے والے چیئرمین احتسابی نشیب و فراز سے نکلیں تو کچھ کریں۔ بلوچستان کا اللہ ہی حافظ ہے اور آزاد کشمیر ہائر ایجوکیشن عدالتوں سے نکلے تو برادری ازم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ سو یونیورسٹیوں کی معاشی بدحالی 75فیصد وائس چانسلرز اور 25فیصد حکومتی قصور ہے۔ ہاں وی سی کے 75فیصد میں 25فیصد پروفیسرز حصہ دار ہیں۔
سنڈیکیٹ میں اینٹی وی سی الزامات کو کچل ڈالنا، سنڈیکیٹ ممبران کو وی سی سے ڈینز تک اور مختلف کمیٹیوں کے چیئرمین حضرات کا شیشے میں اتار لینا، سنڈیکیٹ ممبران کو ایجنڈا پڑھنا نہ آنا یا پڑھ کر نہ آنا، ایک وی سی کا بطور ممبر میزبان وی سی کو خدا واسطے کا سپورٹ کرنا بدقسمتی سے ’’کرائم سنڈیکیٹ‘‘ کی اصطلاح پر پورا نہیں اترتا تو کیا ہے؟ کیا اس طرح یونیورسٹی ’’سنڈیکیٹ سنڈروم‘‘ میں مبتلا نہیں ہو جاتی؟ اسسٹنٹ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر اپنی یونیورسٹیاں چھوڑ کر، اپنے وائس چانسلرز کی برائیاں اور اگلے کی چاپلوسی کے سبب ڈیپوٹیشن اور اپ گریڈ کے چکر میں لور لور پھرتے ہیں۔ ایسا مافیا کیا جانے استاد کا اعزاز، انٹر پرنیورشپ اور ریسرچ اور ان کیلئے تو پلیجرازم بھی آرٹ ہے جرم نہیں۔
سات نکاتی ایجنڈے، یعنی 1-سیاسی و تعلیمی لیڈر شپ وسعت نظر، لگن اور سپانسر شپ کو فروغ دے۔ 2-مفید پروگراموں اور مضبوط پروفیشنل فیکلٹی کو تقویت بخشیں۔ 3-طویل المدتی مدنظر رکھیں۔ 4-فنڈنگ ذرائع پیدا کریں۔ 5- ایجادات اور نصابیات کو ہم آہنگ کریں۔ 6- آرگنائزیشن کا حقیقی انفراسٹرکچر ہو۔ 7- ’’سماجی معیشت‘‘ کی پیدائش کی فلاسفی اور انٹر پرنیور شپ کو بروئے کار لائیں، یونیورسٹیاں کبھی جان سے ہاتھ نہیں دھوئیں گی!
یونیورسٹیوں کو ریسرچ سے ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنا چاہئے اور چاہئے کہ ترقیاتی و منصوبہ بندی و اصلاحات کے اپلائیڈ فارمولے حکومتوں کو دیں کیونکہ حکومتی ڈپارٹمنٹ سیاسی مصلحتوں میں پھنسے ہوتے ہیں۔