• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ایسے ملک کے باسی ہیں جہاں ’’ریاست مدینہ‘‘ کا نعرہ لگانے والے مذہب کارڈ کی دہائی دیتے پھرتے ہیں۔

اس ملک میں آئین، جمہوریت اور عدالتیں موجود ہیں مگر ملکی قیادت ببانگِ دہل چینی ماڈل اپنانے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے، چیئرمین نیب لگی لپٹی رکھے بغیر کہتے پھرتے ہیں کہ سعودی عرب جیسے اختیارات دیدیں تو تین ہفتوں میں لوٹی دولت واپس آجائے گی،

وفاقی وزرا کا خیال ہے کہ پانچ چھ ہزار لوگ مار دیئے جائیں تو حالات ٹھیک ہو جائینگے جبکہ ٹھیلے پر پھل بیچنے والا چپکے سے شاپنگ بیگ میں گلے سڑے سیب ڈالتے ہوئے کہتا ہے، اب تو کوئی خمینی ہی اس ملک کو ٹھیک کر سکتا ہے،

چینی ماڈل کیا ہے؟ ایک ہی جماعت جو ہمیشہ انتخابات جیت جاتی ہے کیونکہ کوئی مدمقابل نہیں ہوتا۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کو پولیس اور فوج سمیت تمام اداروں پر فیصلہ کن اختیار حاصل ہے۔ اسکے مقابلے میں کوئی اور جماعت بنانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ کمیونسٹ پارٹی سے محبت ملک سے محبت تصور ہوتی ہے اور کمیونسٹ پارٹی پر تنقید ملک پر تنقید سمجھی جاتی ہے جس کی سزا موت ہے۔

کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ کئی چھوٹی سیاسی جماعتیں بظاہر تو موجود ہیں مگر عملاً ان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ انتظامی معاملات پر بہت مضبوط گرفت کے باعث یہ چھوٹی جماعتیں کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی پر ہی چلتی ہیں۔ آپ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنا اور ترقی کرنا چاہتے ہیں تو کیمونسٹ پارٹی کا وفادار ہونا شرط اول ہے۔

بالفاظ دیگر ملک میں چینی ماڈل لانے کا مطلب یہ ہوگا کہ حکمراں جماعت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیدیا جائے اور جناب وزیراعظم کے منہ سے نکلے ہر لفظ کو قانون کادرجہ حاصل ہو۔

اسی طرح سعودی عرب میں بادشاہی نظام ہے اور وہاں بھی آئین و قانون اور بنیادی انسانی حقوق جیسی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں اسلئے چیئرمین نیب سعودی عرب جیسے اختیارات کے متمنی ہیں۔

میرا خیال ہے جوں جوں وقت کا دھارا بدل رہا ہے توں توں سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے انداز بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بالشویک انقلاب کے بعد سویت یونین میں ’’انقلاب دشمنوں‘‘ کی مہلک ترین اصطلاح متعارف کروائی گئی۔

اب بھلا ایسے راندہ درگاہ لوگوں کے حق میں کون آواز اٹھا سکتا ہے جو انقلاب دشمن ہوں۔ جوزف اسٹالن نے ’’تطہیر عظیم‘‘ کے نام سے ملک گیر مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد ’’غداروں‘‘ اور ’’انقلاب دشمنوں‘‘ کو چُن چُن کر ٹھکانے لگانا تھا۔

اس مہم کے دوران سویت یونین کی خفیہ پولیس ’’چیکا‘‘ نے واقعتاً سیاسی مخالفین کی چیخیں نکلوا دیں۔

اس خفیہ پولیس کو بعد ازاں NKVD کانام دیدیا گیا اور آج کل یہ خفیہ ادارہ KGBکہلاتا ہے۔ جو شخص اسٹالن کی چیرہ دستیوں کے خلاف آواز اٹھاتا، اسے ’’انقلاب دشمن‘‘ کہہ کر سربازار گولی مار دی جاتی۔

ملکی سلامتی کی آڑ میں جاری سیاسی انتقام کی اس لہر سے بچنے کے لئے ٹراٹسکی جیسے قابل قدر لوگوں کو جلاوطن ہونا پڑا مگر ’’چیکا‘‘ نے انہیں بیرون ملک بھی سکون سے نہ رہنے دیا۔

ٹراٹسکی کو قتل کرنے کیلئے بھیجی گئی پہلی ٹیم تو کامیاب نہ ہوسکی تاہم دوسری کوشش کامیاب رہی اور Ramon Mercaderنے میکسیکو میں ٹراٹسکی کو ڈھونڈ نکالنے کے بعد برف کی سِل ماتھے پر مار کر مار ڈالا۔

روس کی طرح شمالی کوریا اور چین سمیت کئی ممالک میں ’’غدار‘‘ اور ’’امریکی ایجنٹ‘‘ کہہ کر سیاسی مخالفین کا قلع قمع کرنے کی روش عام تھی۔

عالمی شعور نے انگڑائی لی تو سیاسی مخالفین کے قتل عام پر سوالات اٹھائے جانے لگے اور بنیادی انسانی حقوق کی باتوں سے ’’تطہیر عظیم‘‘ کی مہم جوئی کا مزہ کرکرا ہونے لگا۔

درپیش صورتحال کے پیش نظر دنیا بھر میں سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے نت نئے طریقے سوچے جانے لگے۔ ماؤزے تنگ نے اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ سیاسی مخالفین کو ’’ملک دشمن‘‘ یا ’’غدار‘‘ قرار دینے کے بجائے ’’کرپٹ‘‘ کہہ کر ماردیا جائے چنانچہ بدعنوانی کو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا اور انسدادِ بدعنوانی کی مہم شروع کردی گئی۔

جو شخص مفاہمت کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرتا، اسکے گلے میں ’’کرپٹ‘‘ کا ٹیگ ڈال کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ اس تیر بہدف نسخے پر آج بھی عمل ہو رہا ہے۔

اور دنیا بھر میں انسداد بدعنوانی کے نام پر سب سے زیادہ سخت سزائیں چین میں دی جاتی ہیں لیکن اسکے باوجود دنیا کے ہر معتبر سروے کے مطابق چین دنیا کے کرپٹ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ احتساب کے نام پر محض سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگایا جا رہا ہے۔

ایسی خواہشات کا اظہار پہلی بار نہیں کیا جارہا بلکہ اس سے پہلے بھی احتساب کی تلوار اُٹھانے والے اسی نوعیت کے ارادے ظاہر کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پرچند ماہ قبل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جاتی رہی ہے۔

اس پوسٹ کے مطابق پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ڈپٹی چیئرمین نیب میجر جنرل عنایت اللہ خان نے پرویز مشرف سے کہا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانی ہے تو اسکا ایک ہی طریقہ ہے۔

پرویز مشرف نے پوچھا، وہ کیا؟ عنایت اللہ خان نے کہا، اچھی طرح تحقیق کرلیں کہ کن لوگوں نے پاکستان کو لوٹا، پھر ان سب کو گرفتار کرلیں۔ ہر جمعہ کو ان کے ایک ہاتھ کی انگلی کاٹ کر پھینکنا شروع کردیں۔

انگلیاں ختم ہوجائیں تو ہاتھ کاٹیں، پھر پیروں سے شروع کرلیں اور یہ سلسلہ تب تک جاری رکھیں جب تک لوٹی ہوئی رقم واپس نہ آجائے۔

پرویز مشرف نے کہا، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ عنایت اللہ خان نے کہا کہ اسلام تو ہاتھ کاٹنے کی اجازت دیتا ہے میں تو صرف انگلیاں کاٹنے کو کہہ رہا ہوں۔ ہاتھ کاٹنے کی نوبت ہی نہیں آئیگی اور لوٹا ہوا پیسہ واپس آجائیگا۔ پرویز مشرف نے کہا، یہ نہیں ہو سکتا، تم بہت ظالم آدمی ہو۔

عنایت اللہ نے کہا، اگر یہ نہیں ہو سکتا تو آپ لوٹی رقم کا ایک روپیہ بھی واپس نہیں لا سکتے۔ ہوسکتا ہے یہ واقعہ من گھڑت ہو اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ یہ حکایت سچی ہو، لیکن اسے جس خشوع و خضوع سے شیئر کیا جاتا رہا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں فاشزم بہت مقبول ہے حالانکہ فاشزم مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ بڑھاوا دیتا ہے۔

تازہ ترین