• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کے بعد سےہماری سیاست میں ’مذہبی کارڈ‘ہمیشہ استعمال کیاجاتارہاہےاور1956کےبعد سے یہ ہمارے آئین کا حصہ بن چکاہے۔ یا تو مذہبی جماعتوں نےاسکااستعمال کیااوریاپھرجمہوری حکومتوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے کچھ غیرجمہوری قوتوں نے انھیں استعمال کیا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ بہترین جج ہےکہ کیوں ایسی پارٹیوں اور گروپوں کی انتخابات میں ناکامی کےباوجوداس کارڈ کو کس طرح اورکیوں موثرطریقےسےاستعمال کیاگیا۔ 

یہ کارڈریاست اور حکومتی سربراہ کےانتخابات میں خواتین کےخلاف دوباراستعمال کیاگیا،پہلےجب محترمہ فاطمہ جناح نے60 کی دہائی میں صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے خلاف الیکشن میں حصہ لیااور اس کےبعد سابق وزیر اعظم بے نظیربھٹوکے خلاف 1988 میں استعمال کیاگیا۔

یہاں تک کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جماعت کا آغاز 1967 میں کیا توپاکستان پیپلزپارٹی کوبائیں بازو کے رہنماؤں کی مخالفت کےباوجود اپنے نعرے کوʼسوشلزم سے اسلامی سوشلزمʼ کرناپڑا۔

مذہبی جماعتیں قومی اسمبلی کی تین سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کرسکیں۔ تاہم1973کےآئین کو1956اور1962سےزیادہ اسلامی بنانے کے باوجود اوروہ خودبھی اسلامی دنیاکے ایک مضبوط لیڈربن کر ابھرے، لیکن مذہبی جماعتوں نے1977میں انھیں برطرف کرنےکیلئے’مذہبی کارڈ‘ کااستعمال کیا بعد میں ان پر الیکشن میں کچھ سیٹوں پردھاندلی کاالزام عائدکیاگیاتھا۔

ابتدائی طورپرعبوری حکومت میں نئے انتخابات کیلئے مہم کا آغاز کیاگیا لیکن پھر بھٹومخالف تحریک ، تحریکِ نفاذِ مصطفیٰ میں تبدیل ہوگئی۔

حتٰی کہ اتوارکی بجائے جمعے کی چھٹی کا بھٹوکااعلان اور شراب پر پابندی عائد کرنا بھی انھیں نہ بچا سکااور 5جولائی 1977کو مارشل لاءلگ گیا۔

پھرجنرل ضیاءالحق نےمذہبی جماعتوں سے’مذہبی کارڈ‘ کو ہائی جیک کرلیا اوراسے اپنے اقتدارکو طول دینے کیلئے استعمال کیا۔

ایک غیرمثالی اقدام میں انھوں نے ایک ریفرینڈم کرایا جس میں اسلامائزیشن کے حوالےسےپانچ سوالات پوچھے گئے تھے۔ مثبت جواب کا مطلب تھا کہ وہ بطورِ صدر5سال تک قائم رہیں گے۔

صرف پانچ فیصد لوگوں نے ان کیلئے ووٹ کیا لیکن سرکاری نتائج میں دکھایاگیاکہ 95فیصد لوگوں نے ان کیلئے ووٹ کیا۔

1988کےانتخابات کےدوران اس وقت کے آئی ایس آئی چیف مرحوم جنرل حمید گُل نے اس وقت یہ مذہبی کارڈ استعمال کیا جب انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد ،آئی جے آئی، بنائی اس نے بے نظیر بھٹو کے خلاف مہم چلائی۔

لیکن لوگوں نے ان کیلئے ووٹ کیا اور وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ پہلی افغان جنگ کے دوران بھی مذہبی کارڈ کا استعمال کیاگیا جس میں ’مدرسہ کے طالبعلموں اورافغانستان میں سوویت یونین کے قبضے کے خلاف لڑنےوالےاسلامی جنگجوئوں کوپہلی ترجیح دی گئی۔

جنرل ضیاءکے11سالہ دورِ اقتدارمیں سیکڑوں ہزاروں مدرسے قائم کیےگئے اور اس وقت وہاں 20لاکھ طالبِ علم ہیں۔ چونکہ ان میں سےزیادہ تراسلامی مدارس دیوبندمکتبہ فکرکے کنٹرول میں ہیں تودیگر پارٹیوں کےمقابلے میں جےیو آئی کا ان پر مضبوط کنٹرول ہے۔

نائن الیون کےبعد جب ریاست نے اپنی پالیسی تبدیل کی تو مذہبی جماعتوں نے امریکاکی زیرِ قیادت افغانستان پر حملے سےاپنی حمایت میں فائدہ اٹھایااور نتیجتاًمتحدہ مجلسِ عمل نے کے پی میں الیکشن جیت لیااوراربن سندھ میں بھی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔

یہ پہلی بارتھا کہ مذہبی جماعتوں نےپارلیمنٹ میں اتنی زیادہ نشستیں حاصل کیں اور پہلی بار کےپی میں حکومت بنائی۔ بعد میں عمران خان کی زیرقیادت پی ٹی آئی نےکےبعد دیگرے2013اور2018میں الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور جے یو آئی اورجماعتِ اسلامی کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ ڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری،ایک ناموراسلامی سکالر، جنھوں نے حال ہی میں سیاست کو خیرباد کہاہے اور پاکستان عوامی تحریک کے صدرکےطورپر استعفیٰ دیاہے،

انھوں نے دوبار’مذہبی کارڈ‘کااستعمال کیا، پہلی بار 2012میں پی پی پی کے خلاف اور 2014میں پی ایم ایل(ن) کیخلاف، اس دوران ماڈل ٹائون سانحہ ہوگیاجب پولیس نےپی اےٹی کےخلاف لاہورمیں منہاج القران اکیڈمی پرطاقت کااستعمال کیا،

اس واقعے میں پارٹی کے کئی کارکنان مارے گئے۔ ان کی بھی اپنے سکولز اور اکیڈمیاں ہیں ہیں۔ لیکن علامہ خادم رضوی اور تحریکِ لبیک یارسول اللہ کے ابھرنےسے ہماری سیاست کی ایک نئی سمت طے ہوئی اور ’مذہبی کارڈ‘ کا بہت زیادہ استعمال ہوا۔

فیض آباد دھرنا اور جس طرح سے انھوں نے2017-18 میں اس کا استعمال کیا اس نے نہ صرف پی ایم ایل(ن) کو2018کےانتخابات میں نقصان پہنچایا بلکہ ایم کیوایم (پاکستان)کو بھی کراچی میں نقصان پہنچایا کیونکہ ٹی ایل پی نے 40ہزارسے60ہزار ووٹ حاصل کرلیے۔

لہذا اس طرح کی تحاریک کی تاریخ یا ’مذہبی کارڈ‘ کااستعمال اکثر جہموری قوتوں کے خلاف جاتاہےیا منتخب حکومت کاتختہ الٹ جاتاہے، یہ ایسی بات ہے جس نے پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) جیسی دومرکزی جماعتوں کو خبردار کردیاہے اور وہ مولاناکےمارچ میں شامل ہونےکا فیصلہ نہیں کرسکیں۔

چونکہ دونوں ہی مذہبی کارڈ کاشکار رہی ہیں، پی ایم ایل(ن) تو حال ہی میں مولانا خادم رضوی کی جانب سے شکار بنی، انھوں نے اپنے جیل میں بند رہنمائوں نواز شریف اور آصف زرداری کی نصیحت کےخلاف جےیوآئی(ف) کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کا فیصلہ کیا۔

لیکن مولانافضل الرحمن نہ ہی ڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری ہیں اور نہ علامہ خادم رضوی، جوخاموش ہیں یا انھیں خاموش رہنے کاکہاگیاہے۔

ان کے اپنے سیاسی مقاصد ہیں اوریقیناًوہ اپنی موجودگی محسوس کروائے گے چاہیے انھیں’سولوفلائیٹ‘ ہی کرناپڑے۔ انھوں نے یقیناًاپنی زندگی کا خطرہ لیاہے۔ وہ اس دن کا کافی عرصےسےانتظارکررہے تھے۔

انھوں نے 27اکتوبر کیلئے اپنےآزادی مارچ کا اعلان کیاہےاورامکان ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتیں بشمول پی پی پی ، پی ایم ایل(ن) اور اے این پی بھی دوسرے مرحلے میں ان کے ساتھ شامل ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین