• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے ایک ایسے اسکول سے میٹرک کیا، جہاں بچّوں کو معاشرے کاایک فعال اور بہتر شہری بنانے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اسکول صبح سویرے 6 بجے کھلتا۔ حاضری اور وقت کی پابندی کی کڑی نگرانی کی جاتی۔ ٹیچرز کے مسائل بھی مدّنظر رکھے جاتے تاکہ وہ مکمل توجّہ اورذہنی یک سوئی سے بچّوں کو پڑھا سکیں۔ اسکول رات نو بجے بند ہوتا۔ یہاں اساتذہ تعلیم دینےکے ساتھ ساتھ بچّوں کی اخلاقی تربیت بھی کرتے تھے۔ 

تعلیمی معیار بھی بہت اچھا تھا۔ میں نے یہ طویل تمہید اس لیے باندھی ہے تاکہ واضح ہوسکے کہ اسکول میں بچّوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی کس قدر خیال رکھا جاتا۔ کلاس ٹیچرز، بچّوں کی ہر شرارت اور حرکت پر گہری نظر رکھتے ، مگر کبھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے تھے۔ اُن کا سمجھانے اور پڑھانے کا طریقہ کار مختلف تھا۔ شریر بچّے پر خصوصی طور پر مہربان ہوکراور اس کے دل میں اپنا احترام پیدا کرکے اسے نرمی سے سمجھاتے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں بھی اس اسکول سے بہ حیثیت ٹیچر منسلک ہوگیا۔ 

میری کلاس میں خالد نامی ایک بچّہ بہت ضدی اور شریر تھا۔ اس نے ایک روز کلاس کے ایک نعیم نامی معذور بچّے کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا۔ وہ بچّہ لنگڑا کر چلتا تھا اور اسے زمین پر بیٹھنے میں تکلیف ہوتی تھی، اس لیے اس کے لیے ایک الگ کرسی کا انتظام کیا گیا تھا۔ خالد اس سے حسد کرتا تھا، جب کہ معذور لڑکا نعیم انتہائی ذہین، سمجھ دار اور پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ استاد اسے خصوصی توجّہ دیتے تھے، جس پر خالد نے اسے اپنا رقیب سمجھنا شروع کردیا۔ وہ اسے تنگ کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کرتا رہتا۔ 

ایک روز اس نے صبح جلدی آکر اس کی کرسی کے ایک پائے کی کیلیں پلاس کی مدد سے ڈھیلی کردیں۔ اسمبلی کے بعد بچّے کلاس میں داخل ہوئے اور حسبِ معمول نعیم اپنی مخصوص کرسی پر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اس کا توازن بگڑگیا اور وہ دھڑام سے پکّے فرش پر گرپڑا۔ اسے خاصی چوٹیں آئیں۔ کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ کرسی کا ایک پایہ ڈھیلا کردیا گیا تھا۔ میں اسی وقت کلاس میں داخل ہوا تھا، میں نے نعیم کو اٹھنے میں مدد دی، اسے اپنی کرسی پر بٹھایا اور گھنٹی بجا کر چپراسی کو بلایا، اس سے اوزاروں کا بکس منگوا کر خود ہی کرسی کو ٹھونک پیٹ کر بیٹھنے کے قابل بنانے کے بعد بچّوں کو بتایا کہ ہمیں کسی کام کو چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھنا چاہیے۔ پھر نعیم کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے میں بچّوں سے مخاطب ہوا۔ ’’بچّو! میں تمہیں اپنے بچپن کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں جب چھوٹا تھا، تو والد صاحب نے مجھے محلّے کی مسجد میں ایک قاری علیم الدین صاحب کے پاس قرآن پڑھنے کے لیے بٹھادیا۔ وہ قاری صاحب نابینا تھے۔ 

ہمارے پڑوس میں محکمہ جنگلات سے وابستہ ایک ملازم رشید صاحب رہتے تھے، میرے والد سے پوچھ گچھ کے بعد انہوں نے بھی اپنی دو بچّیوں رافعہ اور ناجیہ کو قاری صاحب کے پاس پڑھنے بھیج دیا تھا۔ وہ والدین کے لاڈ پیار سے بگڑی ہوئی بچّیاں تھیں، قاری صاحب کو بہت تنگ کیا کرتیں۔ کبھی بچّیوں کی والدہ قاری صاحب کو کھانا وغیرہ بھجواتیں، تو وہ دونوں کھانا کتّے کے آگے ڈال دیتیں اور برتن میں الٹی سیدھی چیزیں ڈال کر قاری صاحب کے آگے رکھ دیتیں اور کہتیں ’’قاری صاحب پہلے کھانا کھالیں، ٹھنڈا ہوجائے گا۔‘‘ قاری صاحب برتن میں ہاتھ مارمار کر کھانا تلاش کرتے اور وہ قہقہے لگا کر ان کے اندھے پن کا مذاق اڑانے لگتیں۔ 

ہمیں اُن لڑکیوں کی حرکتیں بُری لگتی تھیں، مگر ان آفت کی پرکالہ لڑکیوں کی بدزبانی سے سب ڈرتے تھے۔ اس لیے چُپ رہتے۔ دونوں لڑکیاں پڑھنے میں تیز تھیں، شاید اسی لیے قاری صاحب نے ان کے والدین سے کبھی شکایت نہیں کی۔ البتہ میرا دوست، وسیم، جو میرے ساتھ قرآن پڑھنے قاری صاحب کے پاس آتا تھا، وہ ان سے الجھتا رہتا۔ انہیں الٹی سیدھی حرکتوں اور بے ہودہ مذاق کرنےسے منع کرتا، مگر ان بدتمیز بچیوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ قرآن ختم ہونے پر دونوں لڑکیوں نے مدرسے جانا چھوڑدیا۔ اِدھر ہم بھی قرآن حفظ کرنے کے بعد اسکول کی پڑھائی میں مصروف ہوگئے۔ 

ایک سال بعد ان لڑکیوں کے والد صاحب کا جہلم تبادلہ ہوگیا، تو وہ اپنے بیوی بچّوں سمیت جہلم منتقل ہوگئے۔ اگرچہ ہمارے لیے یہ باب ختم ہوچکا تھا، مگر ہم دونوں دوست باقاعدگی سے چھٹی کے روز قاری صاحب سے ملنے جاتے رہے۔ وہ عالم دین تھے، ان سے ہم نے بہت کچھ سیکھا اور جی جان سے ان کی خدمت کرکے دعائیں بھی لیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے تندریس کا شعبہ اور وسیم نے زراعت کا شعبہ اختیار کیا۔ بہرحال، اب میں آپ کو وہ بات بتاتا ہوں، جسے جاننا آپ کے لیے بہت ضروری ہے۔ 

یہ دس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ وسیم، لاہور منتقل ہوچکا تھا، تو اس نے اپنی شادی پر مجھے بھی مدعو کیا۔ شادی کی مصروفیات سے فارغ ہوئے، تو ایک روز اس کے سالے، رفیع رضا نے، جو نابینا بچّوں کے ایک اسکول میں رضاکارانہ طور پر چند گھنٹے کام کرتا تھا، مجھے اُس اسکول سے متعلق بتایا۔ مجھے چوں کہ فلاحی کاموں سے ہمیشہ دل چسپی رہی ہے اوریہ شوق استاد قاری علیم الدین ہی نے پیدا کیا تھا، تو میں نے فوراً رفیع رضا سے اسکول دیکھنے کی خواہش کا اظہار کردیا، اس نے خوش ہوکر مجھے اور وسیم کو اگلے روز ساتھ چلنے کی دعوت دی اور دوسرے روز ہمیں اپنے ساتھ لے گیا۔ ہم نے ہر کلاس میں جا کر ان کا طریقہ تعلیم دیکھا اور مطمئن ہوکر جب اسٹاف روم میں واپس آکر بیٹھے، تو وہاں ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ 

رفیع رضا نے ان سے ہمارا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ’’یہ ناجیہ صاحبہ ہیں اور اسی اسکول میں پڑھاتی ہیں۔‘‘ مَیں ان کا نام سُن کر ہی چونک گیا، اور کہا ’’آپ کو یاد ہے، ہم آپ کے پڑوس میں رہتے تھے۔ یہ وسیم ہے، ہم دونوں اسی مسجد کے مدرسے میں قرآن پڑھنے آتے تھے، جہاں آپ دونوں بہنیں آتی تھیں۔‘‘ خاتون نے ہمیں پہچاننے میں دیر نہیں لگائی، کیوں کہ ہم قاری صاحب کے معاملے میں ان دونوں بہنوں سے اکثر الجھتے رہتے تھے۔ جب شناسائی کا مرحلہ طے ہوگیا، تو اس خاتون نے اچانک سوال کیا، ’’کیا آپ پھر کبھی قاری صاحب سے ملے؟ میں نے جواب دیا ’’ان کا چند سال قبل انتقال ہوگیا۔ انہوں نے ہمیں انسان ہونے کے اوصاف سے روشناس کروایا اور ہمیشہ مفید مشوروں سے نوازا۔ اُن ہی کے طفیل ہم اس مقام تک پہنچے کہ دل میں سکون ہی سکون ہے۔‘‘

وہ اچانک رونے لگی، پھر ذرا سنبھلنے کے بعد بولی ’’ہم دونوں بہنیں ان سے معافی مانگنا چاہتی تھیں، مگر حالات نے ہمیں موقع ہی نہیں دیا۔ شادی کے بعد میری دو بیٹیاں ہوئیں، دونوں ہی پیدائشی نابینا ہیں اور اسی اسکول میں پڑھتی ہیں۔ شوہر نے دوسری شادی کرلی، تو میں اس اسکول میں پڑھانے لگی۔ اگرچہ معاشی طور پر مجھے کوئی پریشانی نہیں، مگر نابینا بچّیوں کی وجہ سے میری زندگی کا ہر لمحہ آزمائش بن چکا ہے۔ میری بہن، رافعہ بھی سُکھی نہیں رہی۔ شادی کے بعد اس کا ایک بیٹا پیدا ہوا، جو ذہنی طور پر پس ماندہ ہے، اس کے شوہر نے بھی کچھ ہی عرصے بعد اس سے لاتعلقی اختیار کرلی، جس کے بعد سے وہ اپنے بچّے سمیت امّی،ابّو کے ساتھ رہتی ہے۔ اب احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ سزا ہمیں قدرت نے قاری صاحب کو ستانے اورتنگ کرنے پر دی ہے۔‘‘ اس خاتون نے ہمیں اپنی نابینا بچّیوں سے بھی ملوایا، جنہیں دیکھ کر ہم دونوں بہت دکھی ہوئے۔‘‘

یہ واقعہ سن کر سب بچّے آب دیدہ اور گم صُم ہوگئے۔ میں نے پھر خالد کی طرف دیکھا اور کہا ’’ہاں میاں خالد! آپ بتائیں کہ کیا رافعہ اور ناجیہ کا نابینا قاری علیم الدین کو مذاق کا نشانہ بنانا اچھی بات تھی؟‘‘ خالد جو یہ واقعہ سن کر روہانسا ہوگیا تھا، سوال کا جواب دینے کے بجائے فوراً اپنی سیٹ سے اٹھا اور اس معذور لڑکے نعیم کے دونوں ہاتھ تھام کر گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا۔ مَیں کچھ دیر تک خالد کا صدقِ دل سے معافی مانگنے کا منظر دیکھتا رہا، پھر اٹھ کر دونوں بچّوں کو باری باری گلے لگوا کر ان کی پیٹھ تھپتھپانے لگا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس واقعے نے بچّوں کو بہت سے سبق سکھادیئے تھے۔ بڑوں کا ادب، استاد کا مقام، مکافاتِ کا عمل اور قدرت کے ناپسندیدہ کاموں پرسزا دینے کا نظام۔یہ تھا، اُس دور میں اسکول میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا طریقۂ کار۔ کیا آج اسکولوں میں یہ نظام دیکھنے کو ملتا ہے؟ (حافظ عبدالمنّان، قصور)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے
مکافاتِ عمل اور ایک سبق
رعنا فاروقی

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں ۔

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین، روزنامہ جنگ، اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

تازہ ترین