• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صاف پانی، صحت مند زندگی کی ضمانت اور ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ ناصاف، آلودہ پانی کا استعمال مختلف عوارض کا سبب بن جاتا ہے۔ سینٹر فار ڈیزیزز کنٹرول اینڈ پری وینشن ،یو ایس اے (Center For Diseases Control and Preventation USA)کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق غیر محفوظ، آلودہ پانی دُنیا بَھر میں ہر سال 17سے 22لاکھ افرادکی اموات کا سبب بن رہاہے۔ 

سالانہ گیسٹرو اور دیگر انفیکشنز کےتقریباً ایک ارب کیسزسامنے آتے ہیں اور روزانہ 5ہزار بچّے ڈائریا میں مبتلا ہوکرجان کی بازی ہار دیتے ہیں۔اگر پاکستان کی بات کی جائے ،تو ہمارا مُلک آلودہ پانی سے جنم لینے والے عوارض اور حفظانِ صحت کی ابتر صورتِ حال کے باعث سنگین خطرات سے دوچار ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں آلودہ پانی اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل نہ کرنا، بچّوں میں غذائی قلّت اور دیگر بیماریوں کے بڑے اسباب میں شامل ہیں۔

ورلڈ بینک کی ایک حالیہ اسٹڈی"When Water Becomes a Hazard" کے مطابق اگرچہ پاکستان میں غربت کے خاتمے، صحت کی سہولتوں میں بہتری لانے، خاص طور پر غذائی قلّت پر قابو پانے کے مؤثر اقدامات کیے گئے ہیں،اس کے باوجود صورتِ حال تسلی بخش نہیں۔یوں تواس کے کئی عوامل ہیں،لیکن سرِ فہرست محفوظ،صاف پانی تک عدم رسائی، حفظانِ صحت کے اصول پر عمل درآمدنہ کرنا اور بنیادی صحت کے حوالے سے فراہم کی جانے والی ناکافی سہولتیں ہیں، جو مختلف انفیکشنزاور بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں۔ 

یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 40فی صد اموات آلودہ پانی کے استعمال ہی کے باعث ہوتی ہیں۔یونیسیف کی جانب سے کیے جانے والے ایک اور مطالعے کے مطابق20تا40 فیصد مریض آلودہ پانی کی بیماریوں مثلاً ٹائیفائیڈ،ہیپاٹائٹس،ہیضے اور پیچش کی وجہ سے اسپتالوں میں داخل کیے جاتے ہیںاور یہ عوارض اموات کے ایک تہائی اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔

پاکستان کے متعدد علاقوں میں پانی میں زہریلے عناصر کی موجودگی بھی ایک عام بات ہے، جس کا ایک سبب تو سیوریج کا پانی ہے ،جو صاف پانی کی لائنوں میں شامل ہورہا ہے۔ دوسری اہم وجہ صاف پانی میں کیمیکل زدہ صنعتی فضلہ اور پانی کی نہروں/کھالوں میں جراثیم کُش ادویہ اور کھادوں کی آمیزش ہے۔ 

اسی طرح پینے کے پانی میں پایا جانے والا ایک کیمیائی عنصر گندھک بھی صحت کے لیے مضر ثابت ہورہا ہےکہ ایسے پانی کا مسلسل استعمال متعدد خطرناک بیماریوں، خاص طور پر سرطان کا سبب بن جاتا ہے۔گندھک چوں کہ قدرتی طور پر زیرِزمین پائی جاتی ہے۔ 

پانی میں اس کی موجودگی کا پتا چلانا انتہائی مشکل امرہے۔ نیز، اس کا کوئی رنگ، ذائقہ یا بُو بھی نہیں ہوتی ۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ایک لیٹر پانی میں گندھک کی 10مائیکرو گرام مقدار قابلِ قبول ہے،جب کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں ایک لیٹر پانی میںگندھک کی مقدار 3000مائیکرو گرام تک پائی گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے رُکن مُمالک 2030ء تک طے کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف (Sustainable development goals)کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔اس ایجنڈے کا دستخط کنندہ ہونے کے ناتے پاکستان بھی SDG-6کے حصول کا پابند ہے، جس کے تحت شہریوں کی صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولتوں تک رسائی یقینی بنانا ہے۔ان مقاصد کے حصول کے لیے ماضی میں متعدد اقدامات کیے گئے۔جیسے پنجاب ہاؤسنگ، اربن ڈیویلپمنٹ اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ صوبے بَھر میں فلٹریشن پلانٹس پر کام کررہے ہیں۔ 

اسی طرح ’’صاف پانی کمپنی، پنجاب‘‘ صوبائی سطح پر اُٹھایا جانے والا ایک مثبت اقدام ہے،جس کا مقصد شہریوں تک صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانا ہے،مگربعض وجوہ کی بناء پر کمپنی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کام یاب نہ ہوسکی۔حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں عوام کے لیے صاف پانی کی فراہمی کے لیے’’پنجاب آب پاک اتھارٹی‘‘(پپا) کے نام سے ایک بل منظور کیا گیا ہے۔

اگرچہ قومی واٹر پالیسی 2018ء اور پنجاب واٹر ایکٹ 2019ء(جو منظوری کے حتمی مراحل میں ہے)تازہ ترین دستاویزات ہیں،جو کمیونٹی کو صاف و محفوظ پانی کی فراہمی پر توجّہ مرکوز کیے ہیں،لیکن ان دستاویزات کی تیاری کے ساتھ ساتھ سیاسی مداخلت کے بغیر ان کے مکمل نفاذ اور کڑی نگرانی فوری توجّہ کی متقاضی ہے، تاکہ مطلوبہ مقاصدحاصل کیےجاسکیں۔

مُلک بَھر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور پینے کے صاف پانی کی مسلسل کمی ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے، جس کےلیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پرتوجّہ دینا ہوگی ،کیوںکہ آلودہ پانی سے لاحق ہونے والی بیماریاںمُلکی معیشت کو بھی شدید متاثر کررہی ہیں۔ 

اس ضمن میں انفرادی سطح اور پالیسی میکنگ لیول پر بچاؤ کے اقدامات صحت اور غذائی قلّت کے خطرات میں کمی میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈائریا، ناقص خوراک اور آلودہ پانی ہی کے سبب پھیلتاہے، تو صاف پانی کی فراہمی یقینی بناکر اور نکاسی آب کی سہولتیں بہترکرکے اُس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ 

بچّوں کو صفائی ستھرائی کی افادیت سے آگاہ کرکے بھی آلودہ پانی سےپھیلنے والی بیماریوں کی شرح کافی حد تک کم کی جاسکتی ہے، لیکن اس ضمن میں ہر سطح تک شعور اُجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے،جس کے لیے حکومتی اداروں اور نجی شعبوں کا اشتراک ناگزیر ہے، تاکہ وسیع پیمانے پر آگاہی فراہم کرکے حفظانِ صحت کے اصولوں سے متعلق مثبت رویّے اختیار کیے جاسکیں۔ اسی طرح حکومتی سطح پر بھی چند ضروری اقدامات درکار ہیں۔ 

جن میں سیاسی تعاون کے لیے قانون سازی سب سے اہم ہے، تاکہ معیاری و صاف پانی تک رسائی، صاف ماحول اور دیگر مسائل سے بچاؤ کے اقدامات کے حصول کے باقاعدہ اہداف طے کیے جاسکیں۔تاہم، صاف پانی تک رسائی اور نکاسی آب کی بہتر سہولتوں کے حوالے سے ریسرچ ڈویلپمنٹ اور تعلیم کے فروغ پر توجّہ بھی ناگزیر ہے۔

تازہ ترین