• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • زندگی کا مطلب بس ’’بچھڑنے والوں کی ایک لمبی فہرست‘‘ ہے
  • محبوبہ، منگیتر، بیوی اپنا رُتبہ کھوسکتی ہے، مگر ایک ماں کے لیے اُس کی بیٹی نہیں
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

شوکے نے کچھ کہنے کے لیے زبان کھولی ہی تھی کہ اُسی لمحے برآمدے کی جانب باہر کوئی آہٹ ہوئی۔ بخت خان نے ریوالور سے دروازے کے قریب بیٹھے مِیدے کو اشارہ کیا۔ مِیدے نے آواز لگائی، ’’اوئے کون ہے باہر؟‘‘ باہر کوئی مزارع یا راکھا تھا۔ ’’غلام نبی ہوں سرکار۔ پانی لگادوں جاکر کھیتوں کو، باہر دُوسرے راکھے بھی انتظار کررہے ہیں۔‘‘ مِیدے نے جھڑک کر جواب دیا۔ 

’’ہاں ہاں… لگادے اور اب تنگ نہ کرنا… اُستاد آرام کر رہا ہے۔‘‘ باہر کھڑا بندہ واپس پلٹ گیا۔ مَیں نےشوکے کی طرف دیکھا۔ ’’ہاں بولو… مگر جلدی…‘‘ شوکے نے ایک گہری سانس لی۔ ’’یہ سچ ہے کہ بالے نے اُس رات رحیم گڑھ سے ایک لڑکی اُٹھائی تھی، مگر بالے کے ڈیرے پر پہنچ کر پتا چلا کہ اُس کی معشوق نے اُس کے ساتھ ہاتھ کر دیا اور اپنی جگہ کسی اور لڑکی کو بھیج دیا۔ کُڑی تو وہ بھی بڑی سوہنی تھی، پر بالا بہت طیش میں تھا۔ 

وہ تو اُسی رات دوبارہ وہی گھر ٹاپنے جارہا تھا۔ ہم نے ہی بڑی مشکل سے اُسے روکا کہ پہلے اِس کُڑی کا تو کچھ فیصلہ کرلے۔ پھر جب لڑکی نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار کی منگ ہے اور اس کا باپ بھی اچھا خاصا زمیں دار ہے، تو بالے کو چھاپے کی فکر پڑگئی۔ اُس نے راتوں رات اپنے بندوں کےذریعے لڑکی کو بڑے شہر پار کروا دیا۔ وہاں اُس کی ایک پُرانی طوائف سےجان پہچان تھی، جہاں بالاکبھی کبھار گانا سُننے جایا کرتا تھا۔ لڑکی کو وہیں پہنچایا تھا اس کےکارندوں نے۔ چندا کہتے ہیں سب اُسے، اُس بازار میں۔ 

بالے کا منصوبہ تھا کہ معاملہ ذرا ٹھنڈا پڑ جائے، تو پھراس لڑکی کےکچھ اچھے دام وصول کریں گےچندا بائی سے، مگر اگلےہی روز پٹواری کے لڑکے نے بالےکو بھرے بازار میں پھڑکا دیا۔ مَیں بھی زخمی ہوا اور دو چار مہینے ایک دوست کےڈیرے پر چُھپا بیٹھا رہا۔ پولیس نے اُسی رات سارے گروہ کو بالے کے ڈیرے سے گرفتار کر لیا تھا، صرف میں ہی گرفتاری سے بچا تھا، پھر میں بھی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ مقدمہ چلا اور مجھے اٹھارہ مہینے کی قید ہوگئی۔ جیل ہی میں، میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ باہر نکل کریہ سارے غلط دوست اور دھندے چھوڑ دوں گا۔ بس یہ بُوٹی پینے کی لَت نہیں چُھوٹی۔ ورنہ اب پکّی توبہ کرلی ہے میں نے۔‘‘ ہم دَم بخود شوکے کا بیان سُنتے رہے۔ 

اُس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے، میرے اندر دُکھ کی ایک شدید لہر نے سر اُٹھایا۔ ’’اور مہرو… مطلب وہ لڑکی، اُس کا تم میں سے کسی نے پتا ہی نہیں کیا بعد میں۔‘‘ شوکے نے نظریں جُھکا لیں، ’’باقیوں کا تو پتا نہیں۔ پر، میں نے کبھی نہیں پوچھا کسی سے، کیوں کہ چندا سے صرف بالے ہی کا رابطہ تھا۔ ہم سب تو اَجنبی تھے اُس کے لیے۔ چندا ہمیں کیوں مُنہ لگاتی بالے کی موت کے بعد۔ اور پھر اس لڑکی کےپیچھےجانےکامطلب تھا علاقے کےبڑےجاگیر داروں سے دُشمنی مول لینا اور ایک اور کیس اپنے گلے ڈالنا۔ پھر سال ڈیڑھ گزر چکا تھا، ہم سب کو قید اور جیل سے باہر آتے۔ بہت کچھ بدل گیا تھا اتنے عرصے میں۔‘‘

شوکا اپنی بات ختم کرکےخاموش ہوگیا، مگر میرے اندر کا شور بڑھتا گیا۔ بخت خان نے میری طرف دیکھا کہ اب ان دونوں کا کیا کرنا ہے۔ شوکا اس کی آنکھوں میں چُھپی وحشت کی تحریر پڑھ کر گھبرا گیا۔ 

’’میرا یقین کرو، اس لڑکی کے اغوا میں میرا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ یہ سب بالے کا کیا دَھرا تھا، جس کی اُسے سزا بھی مل گئی۔ مَیں نے بھی جیل میں اپنے گناہوں کی سزا کاٹ لی ہے۔ اب اپنے بچّوں کو پالنا چاہتا ہوں،مجھے بخش دو۔‘‘ مَیں نے ایک گہری سانس لی اور شوکے کو دوبارہ چندا کا پتا دُہرانے کو کہا۔ شہر، سڑک اور گلی کا نام اچھی طرح ذہن نشین کیا اور جانےکےلیےکھڑا ہوگیا۔ ’’ہم فی الحال یہاں سے جارہے ہیں، لیکن یاد رکھنا، اب تم، تمہارا گھر، ٹھکانہ اور ہر پتا ہماری نظر میں رہےگا۔ اگرتمہاری بتائی کوئی بھی بات جھوٹ نکلی تو اس بار کوئی رعایت نہیں ہوگی تمہارے ساتھ۔ آج کے بعد جب بھی اپنی بیٹی رانی کو دیکھنا، تو ہر بار اُس باپ کی رانی کو ضروریاد کرنا جو تم لوگوں کی وجہ سے دَربدر اور رُسوا ہوگئی۔‘‘

مَیں نے بخت خان کو چلنےکا اشارہ کیا اور ہم شوکے اورمِیدےکووہیں کمرےمیں ہکّا بکّا اور پشیمان چھوڑ کر ڈیرے سے باہر آگئے۔ آسمان پر بادل جمع ہوکربرسنے کی تیاری میں تھے۔ بخت خان جانتا تھا کہ اب ہماری منزل چندا کاشہر ہے، لیکن اس مرتبہ اس کے لہجے سے بےتحاشا اُلجھنیں جھلک رہی تھیں۔ 

’’اب اس بدنصیب کو اِدھر لانے کا کیا فائدہ عبداللہ خاناں…، وہ مل بھی گیا، تو یہ لوگ زندہ درگور کردےگا اس کو‘‘بخت خان کےخدشات دُرست تھے۔ ہمارا معاشرہ جُرم کی نوعیت جانے بنا سزا دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ داغ دیکھتا ہے، داغ داری کی وجہ نہیں دیکھتا۔ میں نے بخت کو تسلّی دینے کی کوشش کی۔’’ہم نے ایک ماں سے اس کی بیٹی کو ملانے کا وعدہ کیا ہے خان۔ اور بیٹی ہر حال میں ماں کے لیےبیٹی ہی ہوتی ہے۔ بہن، منگیتر، بیوی، محبوبہ تو مرد کی نظر میں اپنا رُتبہ کھو سکتی ہے، پر ایک ماں کے لیے اُس کی بیٹی کا رُتبہ ہمیشہ وہی رہتا ہے۔ 

تم صرف ایک ماں کی کھوئی ہوئی بیٹی کےبارےمیں سوچو۔‘‘بخت خان نے گہری سانس لی اور میرے پیچھے چل پڑا۔ اس بار ہم دونوں نے ایک دوسرے سے الگ ہو کر سفرکا فیصلہ کیا۔ کیوں کہ ہم دونوں کو ایک ساتھ بہت سےلوگوں نے دیکھ لیا تھا اور اگر کسی مخبری کی نوبت آتی، تو دو اشخاص کا ذکر کیا جاتا، جو ایک ساتھ دیکھے گئے تھے، لہٰذا اب ہمارا ایک دوسرے سے فاصلے پر رہ کر چلنا ضروری تھا۔ گائوں کے چھوٹے سے اسٹیشن تک پہنچتے پہنچتے فجر کی اذانیں شروع ہوچُکی تھیں، پھر یکایک موسلادھار بارش نے جل تھل ایک کردیا۔ 

بخت خان کی طرح میرا دل بھی اس سے جُدا ہوتے ہوئے ڈُوب سا رہا تھا۔ منصوبے کے تحت اُسے گائوں کے بس اَڈّے سے بس پکڑ کر شہر پہنچنا تھا۔ ہم دونوں پلیٹ فارم سے پہلے پٹریوں کے ویران گوشے میں تھوڑی دیر رُکے۔ بارش کی تیز بوچھاڑ ہمارے چہرےبھگو رہی تھی، شاید بارش ہم دونوں کے آنسوئوں کا بھرم رکھنے کے لیے ہی برسی تھی۔ ’’اپنا خیال رکھنا بخت خان! بس، ٹرین سے پہلے شہر پہنچے گی اور مَیں دو دن بعد پرسوں شام کو تمہیں شہر کے اسٹیشن کے باہر ملوں گا۔ 

کسی سے زیادہ بات نہ کرنا اور بس میں بھی اندر بیٹھنے کے بجائے چھت پر کوئی جگہ پکڑ کر سفر کرنا، راستے میں شاید ایک آدھ جگہ پولیس کا ناکہ بھی آئے، وہاں اپنےحواس اورغصّہ قابو میں رکھنا، فی امان اللہ۔‘‘ میں نے بخت خان سے ہاتھ ملایا تو اس نے جھپٹ کرمجھےگلےلگا لیا۔ ’’تم بھی اپنا خیال رکھنا عبداللہ خاناں… ٹرین میں زیادہ خطرہ ہے۔ زندگی رہی، مقدّر میں ہوا، تو پھر ملیں گے۔‘‘ بخت خان نے اپنی آواز کی لرزش پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی اور پھر ایک جھٹکےسےعلیحدہ ہو کر نظر ملائے بغیر بارش میں بھیگی ریلوے لائن پر لمبے لمبے ڈگ بھرتا، بوندوں کی بوچھاڑ میں اوجھل ہوگیا۔

شاید زندگی کا دُوسرا نام جُدائی ہے۔ ہم صرف بچھڑنے کے لیے ہی اس دُنیا میں آتے ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچّے، دوست رشتے دار، محبوب اور رقیب… سب ایک ایک کرکے ہم سے بچھڑ جاتے ہیں۔ ہم کسی کو روک نہیں پاتے اور پھر جب قدرت کی طرف سے مِلا بچھڑنے کا کوٹا پورا ہو جاتا ہے، تو ہمارا بھی وقتِ رُخصت آجاتا ہے۔ گویا زندگی کی تعریف بس، بچھڑنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ماریو پُوزو اپنے ناول ’’گاڈ فادر‘‘ میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ ’’یہ دُنیا جائے ذِلّت ہے۔ یہاں عزّت و تکریم کی اُمید اور خواہش مت کرو، انسان اس دُنیا میں صرف بے عزت ہونے کے لیے ہی آتا ہے۔‘‘ 

لیکن میں اس تیز برسات میں کھڑا بخت خان کو دُور جاتے دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ یہ دُنیا جائے ذِلّت ہو یا نہ ہو، مگر بچھڑنے کا پلیٹ فارم ضرور ہے۔ مسلسل جُدائی، کرب، اذیّت اور دُکھوں کی آماج گاہ۔ دُور کہیں اُفق پر صبح کی سپیدی نمودار ہو رہی تھی اور بارش تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ دفعتاً مجھےاحساس ہواکہ جوصُبحیں بارش میں طلوع ہوتی ہیں، وہ ’’صُبحِ تَر‘‘ ہوتی ہیں، کچھ زیادہ دُھلی، زیادہ نِکھری، کچھ زیادہ ملائم۔ یعنی کچھ زیادہ صُبح۔ مَیں انہی خیالات میں گُم کھڑا تھا کہ دُور سے آتی سیٹی کی آواز نے میری سوچیں منتشر کردیں۔ 

ٹرین کی دو بڑی اور تیز زرد ہیڈلائٹس دُور پٹریوں پر جیسے بارش میں تیرتی ہوئی بڑھی چلی آرہی تھیں۔ مَیں نے جلدی سے پلیٹ فارم کے کونے پر بنے ٹکٹ گھر کی کھڑکی کی طرف قدم بڑھائے۔ اندر بیٹھا ٹکٹ بابو آرام کرسی سے ٹیک لگائے مزے سے سو رہا تھا۔ جیسے ساری ٹرین کی بچی ٹکٹیں وہ رات ہی کو فروخت کرچُکا ہو۔ شاید اِسی کیفیت کو کبھی کسی نے گھوڑے بیچ کر سونے سے تشبیہ دی ہوگی۔

تیسری بار کھڑکی پر دستک ہوئی، تو اُس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں، تب تک گاڑی بھی پلیٹ فارم پر لگ چُکی تھی۔ مَیں نے اُسے فیض آباد کا ٹکٹ کاٹنے کو کہا، مگر جب تک میں ٹکٹ لے کر گاڑی کی طرف پلٹا۔ ٹرین نے سرکنا شروع کردیا تھا۔ میرے پاس درجہ دوم کا ٹکٹ تھا، مگر تیز بارش اور رفتارپکڑتی ٹرین نےبوگیوں کی تخصیص مشکل کردی تھی۔

اُوپر سے زیادہ تر ڈبّوں کے مسافر دروازے اندر سے بند کیے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اور وہ کہتے ہیں ناں کہ صبح کی نیند تو کسی محبوبہ سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ مَیں تیز بھاگتا پلیٹ فارم پر جمع بارش کے پانی میں چَھپ چَھپ کرتا، چھینٹے اُڑاتا، دوڑتی بھیگی ٹرین میں اپنا ڈبّا تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا، مگر سوائے ایک دروازے کے باقی سب دروازے مجھے بند ہی ملے، تو میں مجبوراً اِسی آخری بوگی میں سوار ہوگیا۔ 

میرے سارے کپڑے اور سیاہ شال پانی میں شرابور ہوچُکی تھی۔ چند لمحے وہیں راہ داری میں کھڑے رہ کر میں نے اپنے حواس بحال کیے اور پھر مجھے احساس ہوا کہ مَیں تو کسی اعلیٰ درجے کے فرسٹ کلاس سلیپر بوگی ٹائپ ڈبّے میں سوار ہوگیا ہوں۔ کمپارٹمنٹ کی سجاوٹ قدیم طرز کی، مگر بہت نفیس تھی، راہ داری میں پرانے طرز کی کھڑکیاں اور فرش پر دبیز قالین بچھا تھا۔ 

جب کہ راہ داری کی چھت میں مناسب وقفوں سے روشنی کے لیے بنائے گئے بلب، شیڈز میں جلتی مشعل کے طرز کےچھوٹے چھوٹے قمقمے پیلی روشنی کے دائرے بنارہے تھے۔ سارے ڈبّے میں ایک عجیب بھینی سی خوشبو بسی تھی۔ ایک جانب قطار میں پانچ یا چھے چھوٹے چھوٹے کمپارٹمنٹ تھے اور سبھی کے دروازے بند تھے۔ مَیں نے طے کیا کہ اگلا کوئی اسٹیشن آنے تک یہیں راہ داری ہی میں بیٹھا رہوں گا، پھر جیسے ہی گاڑی آگے کہیں کچھ زیادہ دیر کے لیے رُکے گی، اپنے ڈبّے میں چلا جائوں گا۔ 

ویسے بھی میرا اس اعلیٰ درجے کی عمدہ سجاوٹ والی نفیس بوگی میں ہونا اس ڈبّے کی شان کے خلاف تھا۔ ٹرین تیزی سے بارش میں دوڑی جارہی تھی۔ مَیں قالین بھیگنے کےخدشے سے پائوں سکیڑ کروہیں راہ داری کے ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھ گیا۔ کمپارٹمنٹ میں ایک عجیب سی خاموشی تھی، بولتی خاموشی، وہ خاموشی جو ہمیشہ کچھ بتانے کی کوشش کرتی ہے اور وہ جو خاموشی کی بولی سُن سکتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کائنات میں سب سے زیادہ شور خاموشی ہی کاہوتا ہے۔ 

اچانک سامنے والےکمپارٹمنٹ کا دروازہ کُھلا اور اندر سے تِھری پیس سوٹ میں ملبوس، ہونٹوں سے پائپ کا دُھواں اُگلتے ایک بوڑھے شخص نے باہر جھانک کر میری طرف دیکھا۔ ’’ہے لِسن بوائے (Hey Listen Boy)! یہ ڈائننگ کار والا لڑکا ابھی تک کافی لےکرکیوں نہیں آیا…؟‘‘ مَیں اچانک پڑی اس اُفتاد سےگھبرا سا گیا۔ ’’جی… پتا نہیں… مَیں خود مسافر ہوں…‘‘بوڑھے نے لمبا کش لیا۔ ’’مسافر ہو تو باہر کاریڈور میں کیوں بیٹھے ہو۔ اندر آجائو۔ تم تو پورے بھیگ چُکے ہو۔‘‘ مَیں نےجلدی سے جواب دیا۔’’نہیں جناب… دراصل میرے پاس دُوسرے ڈبّے کا ٹکٹ ہے۔ گاڑی چل پڑی تھی، اِس لیے جلدی میں اِسی ڈبّے میں چڑھ گیا۔‘‘ بوڑھے نے لاپروائی سے سر جھٹکا۔ ’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

ابھی بہت دیر تک کوئی اسٹیشن نہیں آنے والا۔ یہاں بیٹھ کر ٹھٹھرنے سے بہتر ہے،تم ہمارےکمپارٹمنٹ میں آجائو۔ اندر حدّت ہےاور میرے ساتھی پروفیسر فیضی بھی تمہیں کمپنی دینے کے لیے موجود ہیں۔ چلو، آجائو شاباش۔‘‘ مَیں نے حیرت سے اُس اعلیٰ لباس اور نفیس اَطوار والے اُدھیڑ عُمر شخص کی طرف دیکھا۔ اُسےجیسےمیرےفقیرانہ حُلیے اورظاہری حیثیت سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا۔ تیسری بار میں انکار نہیں کرپایا اور اُن کے ساتھ کمرے میں داخل ہوگیا۔ 

بوگی میں صرف وہ دو ہی فرد تھے۔ ’’اِن سے ملو، یہ ہیں پروفیسر فیضی… میرے یارِ غار اور مجھے لوگ پروفیسر صدیقی کے نام سے جانتے ہیں، اکبر صدیقی۔‘‘ مَیں سلام کرکے چُپ چاپ ایک جانب سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ’’میرا نام عبداللہ ہے۔ اور مجھے بہت شرمندگی ہو رہی ہے کہ میری وجہ سے آپ دونوں کو یہ زحمت اُٹھانا پڑی۔‘‘ صدیقی صاحب نے سُنی اَن سُنی کرکے شفقت سے کہا۔ ’’ریلیکس… ٹیک اِٹ ایزی۔‘‘ پروفیسر فیضی نے بھی مُسکرا کر میری طرف دیکھا اور پھر سے اپنے انگریزی میگزین میں غرق ہوگئے۔ 

اُن دونوں کے قیمتی لباس، سگار اور پائپ کے اعلیٰ تمباکو کی خوشبو، کمرے میں پھیلی دھیمی سی خواب ناک روشنی اور باہر برستی بارش کا شور۔ سب مل کر ماحول کو مزید دل فریب بنارہے تھے۔ فیضی صاحب نے سر اُٹھایا، ’’بھئی صدیقی! تمہاری کافی نہیں آئی ابھی تک۔ اِس حسین بارش میں بغیر کافی کا سفر تو گویا اِک جُرمِ مسلسل ہے۔‘‘صدیقی صاحب نےسر جھٹکا۔ ’’دِس ریلوے وِل نیور اِمپروو۔ پھر سے بزر دیتا ہوں ڈائننگ کار کو۔‘‘ صدیقی صاحب نے ایک جانب لگا بٹن دبایا اور پھر فیضی صاحب کی طرف پلٹے۔ ’’ہاں! تو تم کیا کہہ رہے تھے فیضی۔ 

اس کائنات میں ہر مخلوق کا اپنا ایک علیحدہ ٹائم زون یعنی وقت کا دائرہ ہے…؟‘‘ فیضی صاحب نے رسالہ رکھ دیا۔ ’’ہاں، بالکل… اور مَیں یہ ثابت بھی کر سکتا ہوں کہ ایک ہی وقت میں پائی جانے والی الگ الگ مخلوقات الگ الگ وقت کے دائرے میں سفر کرتی ہیں یازندہ ہیں۔‘‘اب جنّات ہی کو لے لو، اس مخلوق کا ذکر تو ہماری الہامی کتاب قرآن میں بھی آیا ہے ناں، ضروری تو نہیں کہ وقت کے جو اوقات ہم انسانوں کے لیے مقرر کیے گئے ہیں، وہی پیمانہ جنّات پر بھی لاگو ہوتا ہو۔ مثلاً وہ حضرت سلیمان ؑکا قصّہ ہی لے لو۔ 

جب حضرت سلیمان ؑ نے ملکۂ صبا کا تخت پیش کرنے کا حکم دیا، تو ایک جن نے اُسے پلک جھپکنے کے وقفے میں اُٹھا لانے کا دعویٰ کیا اور لے بھی آیا، حالاں کہ وہ تخت ہزاروں میل دُور کسی اور سلطنت میں موجود تھا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جنّات کسی الگ ٹائم زون میں سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جو سفر انسان ہفتوں، مہینوں میں طے کرتا ہے، وہ پل بھر میں طے کرسکتے ہیں۔ ’’مَیں حیرت سے اُن دونوں بزرگوں کی یہ بحث سُن رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا، جیسے وہ مجھے یہاں بُلا کر اب میری موجودگی ہی سے بے خبر ہوگئے ہیں۔ صدیقی صاحب نے فیضی صاحب کے لیے نیا سگار نکالا۔ 

اُسے سامنے پڑے کٹر سے کاٹا اور بڑی تہذیب سے اُنہیں پیش کیا۔ فیضی صاحب نے سِگار سُلگایا۔ ’’اس کامطلب یہ ہواکہ جنّات روشنی کی رفتار سےخلا میں سفر کرتے ہیں،جب کہ انسان اپنے اس جسم کی معذوری کی وجہ سے قاصر ہیں، کیوں کہ یہ جسم اس رفتار کی حد سے بہت پہلے ہی جل چُکا ہوگا۔‘‘ صدیقی صاحب سوچ میں گم آواز میں بولے۔ ’’بجا فرمایا،مگر انسانوں کے بارے میں بھی تو مختلف ٹائم زونز میں چلے جانے کی مثالیں قائم ہیں۔ 

مثلاً اصحابِ کہف، جن کے لیے اس غار کا ٹائم زون بدل دیا گیا، جس میں وہ سو رہے تھے۔ اُن کی چند گھنٹے کی نیند باقی زمانے پر قریباً ساڑھے تین سو برس بن کر گزری اور جب اُن کا ایک ساتھی باہر کھانا لینے نکلا تو زمانہ بدل چُکا تھا۔ اِسی طرح ایک پیغمبر کے اپنے ایک سو برس تک آرام کو چند گھڑی کا آرام سمجھ کر اُٹھنا اور قریب ہی اپنی سواری کا ڈھانچا پڑے دیکھنا، جب کہ ان کا کھانا تک گرم تھا۔ اور بھی کچھ مثالیں ہیں اِس وقت کے بدلتے مدار کی۔ 

یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ مختلف کائناتوں کے لیے مختلف ٹائم زونز مقرر کیے گئے ہیں، کبھی ہمارے ہاں کے وقت کے حساب سے کچھ پل ہی گزرتے ہیں، مگر انسان دوسرے زمانوں کی سیر کر کے پلٹ آتا ہے اور کبھی ہماری دُنیا میں صدیاں بیت جاتی ہیں، مگر دوسری کائنات یا ٹائم زون کے پیمانے پر صرف چند گھنٹے یا ایک رات گزری ہوتی ہے۔‘‘ تبھی میری زبان سے بے اختیار نکل گیا۔ 

’’شاید اِسی لیے انسان برسوں سے کوئی ایسی ٹائم مشین بنانے کی کوشش میں سرگرداں ہے، جس میں بیٹھ کر وہ آسانی سے اپنے اس بوسیدہ جسم کو کسی دُوسرے ٹائم زون یا زمانے میں لے جاسکے۔‘‘ دونوں بزرگوں نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ ’’بہت خوب… بڑی دُور کی کوڑی لائے ہو میاں… ٹائم مشین کی ایجاد اب زیادہ دُور نہیں، مگر قدرت نےاس معاملے میں بھی انسان سےکوئی ناانصافی نہیں کی۔ ہر انسان کو ایک ٹائم مشین عطا کی گئی ہے، جس میں وہ مختلف زمانوں کی سیر کرتا ہے، اَجنبی وادیوں اور چہروں کو دیکھتا ہے۔ ایک پل کےہزارویں حصّے میں دُنیا کےکسی دُوسرے سِرے پر پہنچ سکتا ہے۔ 

نئے موسم جھیلتا ہے، نئے ذائقے چکھتا ہے اور جانتے ہو، وہ ٹائم مشین کیا ہے، تمہارے خواب۔ تم خواب میں جو دُنیا دیکھتے ہو، وہ بھی کہیں وجود رکھتی ہوگی ناں، کیوں کہ جو موجود نہیں ہے۔ اُس کا تو خواب یا تصوّر بھی محال ہے۔‘‘ اتنے میں کسی نے ڈبّے کے دروازے پر دستک دی۔ صدیقی صاحب نے متانت سے آواز لگائی۔ ’’پلیز کم آن…‘‘ میں سمٹ کر بیٹھ گیا۔ 

دروازہ کُھلا، تو گرم کافی، سینڈوچز اور اسنیکس جیسے انگریزی ناشتے کی مہک پورے ڈبّے میں پھیل گئی۔ آنے والا شاید ڈائننگ کار کا کوئی ویٹر تھا، مگر اس کی یونی فارم مجھے کچھ عجیب سی محسوس ہوئی۔ ایسی وردیاں میں نے بہت پہلے کسی فلم کے پوسٹر پر دیکھی تھیں۔ شاید فلم کا نام ’’اورینٹ ایکسپریس‘‘ تھا۔ مگر وہ چمکیلی سجی سجائی وردی ویٹرکے جسم پر بہت جچ رہی تھی۔ اُس کی کیپ بھی پرانے طرز پر سفید اور نیلے رنگوں سے بنی ہوئی تھی۔ ویٹر نے سرجُھکا کر ہم تینوں کو سلام کیا اورکافی پیالیوں میں ڈالنے لگا۔ 

مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے اس اعلیٰ درجے کے ڈبّے میں اِن امراء کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر ضرور ناک بھوں چڑھائے گا، سوال کرے گا، یا کم از کم اُس کے چہرے پر حیرت کے آثار تو نمایاں ہوں گے، مگر وہ بڑی تعظیم کے ساتھ مسلسل مُسکراتا رہا۔ فیضی صاحب نے اُسے روک دیا۔ ’’ٹھیک ہے، تم جائو۔ ہم کافی خود بنالیں گے۔ اورہاں… اتنی اچھی کافی اورناشتےکےلیے شُکریہ‘‘ بیرے نے سر جُھکا کرہمیں تعظیم دی اور ڈبّے سے پلٹ گیا۔ میری حیرت بڑھتی گئی۔ پروفیسر فیضی نے کافی بنائی اور سب سے پہلے مجھے پیش کی۔ برسوں کے بعد اتنی عمدہ گرم کافی کی مہک محسوس کرتے ہی میرے اعصاب بیدار ہونے لگے۔ مَیں نے اس کافی کی مہک پہلے بھی کہیں محسوس کی تھی۔ 

ہاں، ہمارا ہیڈ بٹلر کبھی کبھی پاپا کی خاص فرمائش پر یہ کافی بنایا کرتا تھا، جو پاپا اپنے لیے کہیں باہر سے منگوایا کرتے تھے، مگر وہ برینڈ تو پاپا کے کہنے کے مطابق بہت پرانا تھا اور دُنیا میں شاید چند ہی جگہوں پر اس قدیم کافی کا ذخیرہ باقی بچا ہو۔ پھر اس لوکل ریل گاڑی کی ڈائننگ کار کے باورچی خانے میں اتنی عُمدہ اور مہنگی کافی کہاں سے آئی ہوگی۔ 

ضرور پروفیسر فیضی یا صدیقی صاحب نے ویٹر کو خود اپنے سامان سے دی ہوگی کہ بنا لائے۔ مَیں نے کافی کا دوسرا سپ ہی لیا تھا کہ اچانک دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔ صدیقی صاحب نے پوچھا۔ ’’کون ہےبھئی…؟‘‘ باہرسےآواز اُبھری، ’’پولیس…‘‘ میرے ہاتھ میں پکڑے مگ سے کافی چھلک گئی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین