• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خان کے اقوام متحدہ سے خطاب پر بات کرنے سے پہلے اس بات پر غور کر لیجئے کہ انسانی زندگی میں کچھ ایسی خاموش تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کے اثرات کا بظاہر اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں انسان ذہنی ترقی کی منازل طے کررہا ہے وہاں اس کی ذہنی ساخت بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

تیز رفتاری، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جنون، دنیا کو فتح کرنے کے عزائم نے ہماری زندگی میں ایک مشینی انقلاب برپا کررکھا ہے۔ آج دنیا جہاں ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے وہاں صوتی آلودگی یا شور شرابے، ناپسندیدہ آوازوں نے ہماری ذہنی و جسمانی ساخت کو بُری طرح متاثر کررکھا ہے۔

انسان کی جسمانی و ذہنی طاقت کا موازنہ کریں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قدرت کے قریب صاف ستھرے ماحول، تازہ ہوا، چشموں کے بہتے پانی اور خوبصورت چہچہاتے پرندوں کی مسحور کن آوازوں کے جو مثبت اثرات انسان کے ذہن و جسم پر مرتب ہوتے ہیں اس سے خوبصورت خیالات، نظریے، سوچیں اور قومیں جنم لیتی ہیں۔

آلودہ ماحول سے پیدا ہونے والی آلودہ آوازیں ذہنی انتشار، فساد، بکھرے خیالات، بے ہنگم زندگی کے ڈرائونے خواب دکھاتی ہیں اور ان سے مردہ قومیں جنم لیتی ہیں۔

آپ کے اردگرد بداخلاق، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے والے افراد کا مجموعہ ہوگا تو یقیناً یہ آوازیں آپ کے ذہن میں اسی گندگی کو بُرے خیالات میں منتقل کر دیں گی۔ انسانی فطرت کے تقاضوں میں اہم ترین خواہش سکون سے بھرپور زندگی گزارنا ہے لیکن صوتی آلودگی آج کے انسان کو چین سے جینے نہیں دیتی۔

مہذب معاشروں میں احتجاج کے بھی انوکھے انداز ہیں۔ کبھی وہ منہ پر پٹیاں باندھ کر صوتی آلودگی کے خلاف احتجاج کررہے ہوں گے یا لاکھوں افراد پر مشتمل خاموش احتجاجی مظاہروں سے اپنے حکمرانوں کا ضمیر جھنجھوڑ رہے ہوں گے۔ توڑ پھوڑ، جلائو گھیرائو یا قومی املاک کو نقصان پہنچانا تو بہت دور کی بات ہے،

پاکستان جیسے بکھرے غیر منظم معاشرے میں اس کے برعکس پُرتشدد احتجاج، اونچی آواز میں نعرے، جلائو گھیرائو سیاستدانوں کی چیخ پکار، بے تکی باتیں، ایک مشتعل، منتشر، اشتعال انگیز قوم کی تشکیل کا باعث بن رہی ہیں اور ذہنوں کو بُری طرح آلودہ کررہی ہیں۔ کانوں سے سنائی دینے والی آوازیں براہ راست آپ کے دماغ سے ٹکرا کر دل کو متاثر کرتی ہیں۔ پھر ایسی ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن کا بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس بھی کوئی علاج نہیں۔

اب آپ ہمارے خان کو ہی لیجئے کہ جن کے اقوام متحدہ میں تاریخی خطاب نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی ہے۔ ایک عالم میں ان کے خطاب کا چرچا ہے اور دنیا ان کی آواز پر کان دھرے بیٹھی ہے۔

خان کے دل سے نکلنے والی آواز کچھ بڑے کان والوں کو ناگوار تو ضرور گزری ہوگی جو یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ شخص ہمیں کیسے للکار رہا ہے۔

خان نے اقوام عالم کو وہ سب کچھ کہہ دیا جو ماضی میں کسی کو کہنے کی جرأت نہ ہوئی یا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کسی نے اتنی وضاحت سے کھرا سچ نہ بولا ہوگا۔ مگر آپ انسانی فطرت کو کیسے بدل سکتے ہیں جو آپ کی ناپسندیدہ آواز سننے کو تیار نہیں۔

اللہ ہمارے خان کی حفاظت فرمائے۔ اس کی گرج دار آواز کو نظرِبد سے بچائے۔ خان نے مرد کا بچہ بن کر امت مسلمہ کے لیڈر کے طور پر پوری دنیا کا ضمیر جھنجھوڑا ہے مگر ہمارا ماضی، ہماری سیاسی تاریخ اور واقعات کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان پاکستانی قوم کی واحد اُمید اور طاقت تھے لیکن پاکستان مخالف قوتوں نے انہیں شہید کر دیا۔

طویل آمریت اور پاکستان دو ٹکڑے ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو تیسری دنیا کی طاقت بن کر ابھرے۔ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کو امت مسلمہ کامضبوط پلیٹ فارم بنایا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔

اقوام متحدہ میں بھارت کو للکارا، امریکہ کو سفید ہاتھی کہنے اور پاکستان کا دنیا بھر میں نام روشن کرنے والے کا انجام کیا ہوا؟ کس نے کیا؟ اور کیوں کیا؟ یہ سوال بڑے تکلیف دہ ہیں۔

استعماری طاقتوں کے آلہ کار بننے، بھٹو کو تختہ دار پر لٹکانے والے ضیاء الحق نے جب اسلام کے نام پر طاقت پکڑی اور افغان جہاد کے نام پر فاتح افغانستان بنانے چلا اور کشمیر کی فتح کا خواب دیکھنے لگا تو سامراجی قوتوں نے کیسا انتقام لیا؟

بھٹو کی تصویر بے نظیر نے مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے فلیش پوائنٹ کے طور پر پیش کیا، طالبان کی پہلے سرپرستی پھر مخالفت آخر کار انہیں اپنا بھائی قرار دیا،

افغان امن عمل کا حصہ بنیں تو روز روشن میں شہید کر دی گئیں۔ میاں نوازشریف کمزور تھے یا شیر لیکن اسی قوم کے لیڈر تھے تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے چلے تھے، سمجھدار تھے، نااہل یا کرپٹ فیصلہ تو مستقبل کا مورخ ہی کریگا مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ پاکستان کیلئے کچھ کرنے کی خواہش تو رکھتے تھے۔

شکر ہے اُن کا انجام شہیدِ ملت، مرد مومن، شہیدِ جمہوریت، قائدِ عوام جیسا نہ ہوا۔ اب ہمارا خان بھی اسی راہ پر چل نکلا ہے اور وہی نعرے لگا رہا ہے۔ وہ پاکستان، اسلام مخالف قوتوں کو للکار رہا ہے، کشمیر کی آزادی، حقِ خود ارادیت کی بات کررہا ہے، طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لا رہا ہے۔

پاکستانیوں کو تن تنہا دنیا کی عظیم قوم بنانے چلا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ جو آواز میرے کانوں کو پسند ہو وہی آواز آپ کے کانوں کو بھی بھلی لگے، مخالفین کے کانوں میں گونجنے والی خان کی آواز کیا رنگ دکھائے گی؟ اللہ خیر کرے، تمام تر اختلافات کے باوجود یہی کہا جا سکتا ہے: ؎

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

تم اقتدار میں رہو یا نہ رہو ماضی کے حکمرانوں کی طرح تم بھی ہماری بہترین چوائس ہو۔

دنیا ان حالات میں ہماری ناپسندیدہ آواز سننے کو تیار نہیں کہ جب ہم اندرونی طور پر سیاسی و معاشی انتشار کا شکار ہوں، معیشت ابتری کا شکار ہو۔

عقل ساتھ نہیں دیتی لیکن ہم گھبرانے والے نہیں بس تم دھوکہ نہ دینا، گفتار کے ساتھ کردار کے غازی بنو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

تازہ ترین