• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا ہو یا مین اسٹریم میڈیا، اس پُراسرار شخص کے بارے میں بہت سی تھیوریز خبروں اور دستاویزی فلموں کی شکل میں موجود ہیں، جن کو لاکھوں کروڑوں لوگوں نے پڑھا اور دیکھا ہے۔

وہ 12اگست 1930کو بوڈا پیسٹ ہنگری میں پیدا ہوا، اس کی ذاتی دولت 8ارب ڈالر سے زائد ہے جبکہ 32ارب ڈالر مختلف منصوبوں میں لگا چکا ہے۔ عام سے خاص بننے میں اسے کئی دہائیاں لگ گئیں۔

ایشیائی بالخصوص پاکستانی اس کے بارے میں نسبتاً کم آگاہی رکھتے ہیں جبکہ بھارتی اسے بخوبی جانتے ہیں اور سفید فام انگریز اسے انٹرنیشنل پپٹ ماسٹر گردانتے ہیں، منشیات کے جواز کیلئے قانون سازی کا معاملہ ہو، تعلیم، صحت، ماحولیات کی بہتری کیلئے سرمایہ فراہم کرنے کی آڑ میں سیاسی مقاصد کے حصول اور انتشار پھیلانے کا ذکر ہو، معاشی اہداف حاصل کرنے کیلئے بین الاقوامی پالیسیوں میں چھڑ چھاڑ کرنا ہو، امریکی ارکانِ کانگرس کی خریداری کرنا ہو یا امداد کے نام پر جمہوریت و دیگر سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے مختلف ممالک میں بھاری رقوم کی سرمایہ کاری کرنا ہو، اس کا نام واشگاف الفاظ میں لیا جاتا ہے، اسے یورپی قوم پرستوں کا جن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں یہ شخص جاتا ہے سازشوں کے بادل اس ملک کو گھیر لیتے ہیں۔

امریکی قدامت پسند الزام عائد کرتے ہیں کہ دنیا میں ہونے والی بڑی سیاسی تبدیلیوں کے پیچھے اسی کا نظریہ کارفرما ہے، بعض تو اسے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار ٹھہراتے ہیں، اس نے صدارتی انتخاب میں جارج ڈبلیو بش کو شکست دینے کیلئے 2کروڑ 35لاکھ 81ہزار ڈالر بطور فنڈ مختلف امریکی گروپس کو عطیہ کئے۔ 27ستمبر 2012ء کو اس نے براک اوباما کے دوسرے صدارتی انتخاب کیلئے دس لاکھ ڈالر کا فنڈ دیا۔

2016ء میں ہیلری کلنٹن کی صدرتی مہم کیلئےدس لاکھ ڈالر کا فنڈ دیا۔ مرکزی و مشرقی یورپ ہو یا افریقہ، اس کی تنظیم اوپن سوسائٹی فائونڈیشن مسلسل دامے درمے سخنے امداد کرتی چلی آرہی ہے۔

بینک آف انگلینڈ کیلئے وہ ایک ڈرائونا خواب ہے، کرنسی کے بحران میں اس نے بینک آف انگلینڈ کو تباہ کیا تھا، اسی کی وجہ سے 16ستمبر 1992ء کو برطانیہ کی تاریخ میں ’’سیاہ بدھ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اسی کی وجہ سے برطانوی حکومت نے مجبور ہوکر پائونڈ اسٹرلنگ کو یورپین ایکسچینج ریٹ میکنزم سے واپس لے لیا کیونکہ برطانیہ پائونڈ کو طے کردہ نچلی سطح پر رکھنے میں ناکام ہوگیا تھا۔

اسی کی وجہ سے برطانیہ کے محکمہ خزانہ کو تین اعشاریہ چار ارب پائونڈ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ٹریڈنگ کے نقصانات کا تخمینہ 8سو ملین پائونڈ لگایا گیا لیکن عوام کو کرنسی کی قیمت گرنے پر اس سے کہیں زیادہ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔

26اکتوبر 1992ء کو نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ وہ اس روز 10ارب ڈالر سے زیادہ کے شیئرز بیچنا چاہتا تھا۔ 1992ء میں پائونڈ اسٹرلنگ بحران میں سرمایہ کاری کرکے اس نے ایک ارب ڈالر کمائے۔

اپنی اوپن سوسائٹی فائونڈیشن کے ذریعے وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے ترقی پسند تحاریک کی مالی مدد کرتا رہا۔ 1979ء سے 2011ء کے دوران اس نے مختلف منصوبوں کے تحت 11ارب ڈالر کا بھاری بھرکم فنڈ مختلف ممالک کو دیا۔

1980ء سے 1990ء تک یورپ میں کمیونزم کے خاتمے میں اسی کا اثر و نفوذ شامل رہا۔ 1997ء کے ایشیا کے مالی بحران کے دوران ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا کہ میانمار کو رکن بنانے کی وجہ سے اس شخص نے تنظیم آسیان (ایسوسی ایشن آف سائوتھ ایسٹ ایشین نیشنز) کو سزا دی اور کرنسی کی قیمت گرانے کیلئے اپنی دولت کی طاقت کا استعمال کیا۔

اسی شخص کے فنڈ مینجمنٹ نے تھائی لینڈ میں کرنسی کا بحران پیدا کیا۔ اس پُراسرار شخص نے اکتوبر 2009ء میں انسٹیٹیوٹ فار نیو اکنامک تھنکنگ کی بنیاد رکھی۔

یہ تھنک ٹینک مبینہ طور پر بین الاقوامی ماہرین معیشت و تجارت پر مشتمل ہے جس کی ذمہ داری دنیا بھر کے معاشی نظاموں میں نئے رجحانات بارے تحقیق کرنا ہے تاہم پس منظر میں یہ مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسا شخص ہے جو دوسروں کا اعتماد جیت کر اس پر یقین کرنے کو ابھارتا ہے جو بالکل بھی درست عمل نہیں ہوتا۔

ٹرمپ خطے میں کاروباری جنگ شروع کر دے گا جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹوں پر بہت برا وقت آئے گا۔ 2011ء وال اسٹریٹ مظاہروں کے حوالے سے ٹی وی پر نشر ہونے والے عوامی انٹرویوز میں اسی کا نام سامنے آیا۔ 1988ء میں فرانسیسی سرمایہ کار جارجیز پی بی ریو نے اس شخص سے ملاقات کی اور فرانسیسی ملٹی نیشنل بینک کے شیئرز خریدنے کی ترغیب دی جو شیراک حکومت کے شروع کئے گئے پرائیویٹائزیشن پروگرام کاحصہ تھا۔

اس چالاک شخص نے انفرادی طور پر ایک کے بجائے چار فرانسیسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر دی۔ 1989ء میں فرانسیسی اسٹاک ایکسچینج ریگولیٹری اتھارٹی نے ابتدائی تحقیقات میں اس کی سرمایہ کاری کو انسائیڈر ٹریڈنگ سے مبرا قرار دیا تاہم 14جون 2006ء میں دوبارہ سماعت کے بعد فرانسیسی سپریم کورٹ نے اسے انسائیڈر ٹریڈنگ کا مجرم قرار دیا اور 9لاکھ چالیس ہزار پائونڈ جرمانہ عائد کیا۔

دسمبر 2006ء میں اس نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں فیصلے کے خلاف اپیل کی جو مسترد کر دی گئی۔ ماہر اقتصادیات پال کروگ مین نے لکھا کہ منافع اور تفریح طبع کیلئے بحران پیدا کرنے والے کی نہ کوئی پہچان مقرر ہے اور نہ ہی کوئی عنوان، تاہم میں ایسے کرداروں کیلئے عنوان سروئی تجویز کرتا ہوں۔ یہ پُراسرار شخص 89سالہ ارب پتی جارج سورس ہے۔

دنیائے عالم ایسے بے شمار شاطر کھلاڑیوں سے بھری پڑی ہے جو کارپوریٹ سیکٹر ہی نہیں ملکوں اور ریاستوں پر بھی قبضہ جما لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین