• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا صاحب کے بنے بنائے کھیل پر وزیراعظم کی ایک تقریر نے پانی پھیر دیا۔ وہ بڑے ذوق و شوق سے ناموس رسالتؐ کا دلکش کارڈ استعمال کرکے لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے مگر اقوام متحدہ میں عمران خان نے ایسی باتیں کیں کہ پوری مسلمان دنیا اَش اَش کر اٹھی۔

اس نے دل سے باتیں کیں اور وہ دلوں میں اتر گئیں۔ اس تقریر کے بعد مولانا کو کارڈ تبدیل کرنا پڑا۔ اب وہ دھاندلی اور ملکی معیشت کا کارڈ سامنے لے آئے ہیں۔

پچھلے دنوں سیٹھوں کے ایک گروہ نے بھی آرمی چیف سے ملاقات کی تھی، ان میں سے کئی سیٹھ سابقہ حکمرانوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ ان کا یہ عالم ہے کہ بارہ ارب ڈالر کی تجارت کرکے صرف چھ ارب ڈالر شو کرتے ہیں، باقی پیسہ پرانے آقائوں کی خواہش کے مطابق باہر ہی سے بیرونی دنیا میں بھیج دیتے ہیں۔

ملاقات کا یہ کھیل جیلوں میں بند مبینہ لٹیروں کی خواہش پر رچایا گیا۔ اس کھیل کا مقصد یہ تھا کہ موجودہ حکومت کے خلاف کام کو تیز کیا جائے۔ اس ملاقات کو جنرل آصف غفور نے سیمینار میں تبدیل کر کے خواہش کو حسرت میں بدل دیا۔

اچھی تقریر سے مولانا صاحب خائف ہو جاتے ہیں۔ مولانا کے والد مفتی محمود کا بھی یہی عالم تھا۔ ایک زمانے میں بھٹو نے مفتی محمود کے مقابلے میں محسن نقوی کو ٹکٹ دیا۔

محسن نقوی شاعر بھی تھا، ذاکر بھی۔ حالت یہ تھی کہ ڈیرہ کے لوگ محسن نقوی کی تقریریں سننے جاتے، نہ صرف تقریریں سنتے بلکہ سارا دن ان تقریروں کے کیسٹ بھی سنتے۔

وہ تو اس الیکشن کو ضیاء الحقی وعدے کھا گئے ورنہ مفتی صاحب کی شکست یقینی تھی۔ اب مولانا صاحب فرما رہے ہیں ایک تقریر سے کیا ہوگا؟ اس کا جواب کینیڈا میں مقیم پنجابی کے خوبصورت شاعر سلیم پاشا نے دیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’’عمران خان نے جو اقوام متحدہ میں پوائنٹس اٹھائے تھے، ان میں ایک ترقی یافتہ ملکوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے عدم دلچسپی کے بارے میں تھا، اگلے ہی روز کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا میں دو ارب درخت لگانے کا حکم دیا۔

دوسرا پوائنٹ اسلامو فوبیا تھا، دو روز قبل یورپی ممالک نے توہین رسالتؐ کو جرم قرار دے دیا ۔ ایک پوائنٹ RSSکی دہشتگردی تھا، گزشتہ روز امریکہ نے RSSسمیت دو ہندو تنظیموں کو دہشتگردوں کی عالمی فہرست میں شامل کیا ہے۔

ایک پوائنٹ مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت تھا، امریکی سینیٹ نے کشمیر میں کرفیو ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے، جس پر انڈیا چیخ رہا ہے، اگر یہ سب کچھ تقریر سے واقع نہیں ہوا تو پھر بھی پاکستان کی کامیاب سفارت کاری سمجھ لیجئے‘‘۔

میری مولانا سے پرانی نیازمندی ہے،میں نے تو عرصہ پہلے ان سے عرض کیا تھا کہ آپ دینی شخصیت ہیں، لوگ آپ کی عزت کرتے ہیں، لوگ عزت کیلئے سیاست کرتے ہیں، آپ کیوں سیاست کرتے ہیں؟ مولانا کا برجستہ جواب تھا ’’میں عزت بچانے کیلئے سیاست کرتا ہوں‘‘۔

مولانا صاحب ویسے تو سلیم صافی کو بھی جواب نہیں دے پائے تھے، جب پوچھا گیا کہ ناموس رسالتؐ کے حوالے سے خطاکار حکومت کے ساتھ کیوں چل رہے ہیں؟ تو مولانا نے کہا آگے چلیں، جب اینکر نے جواب مانگا تو فرمانے لگے ’’انسان خطاکار ہے، ہم حکومت کا ساتھ اس لئے دے رہے ہیں تاکہ خطا کاروں کی رہنمائی کر سکیں‘‘۔

1947ء میں ہندوئوں نے ماسٹر تارا رام کو تارا سنگھ بنا کے پیش کیا تھا، اب ہندومت کے پیروکار بلدیو کمار کو بھی سکھ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ بلدیو کمار خیبر پختونخوا کے ایم پی اے سورن سنگھ کا قتل کا ملزم ہے۔

یہ بھارت منتقل ہو گیا ہے، اب اس نے بڑی داڑھی رکھ لی ہے اور ساتھ ہی ہندوئوں نے اس کا نام بلدیو کمار سنگھ رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب دنیا بھر کے سکھ مولانا کے مارچ کو بھی بھارت سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نومبر میں گورو نانک کا پانچ سو پچاسواں جنم دن منایا جا رہا ہے اور مولانا اس دوران حالات خراب کرنا چاہتے ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ دو برس پہلے مولانا نے جمعیت علمائے اسلام ہند کا سو سالہ جشن منایا تھا، یہ وہی جمعیت علمائے اسلام ہند ہے جس نے پاکستان کی مخالفت کی تھی، آج جمعیت علمائے اسلام ہند کے جنرل سیکرٹری مولانا محمود مدنی بتاتے ہیں ’’ہماری جماعت کی گیارہ ستمبر کو جنرل کونسل کی میٹنگ تھی، اس میں جو قرارداد منظور ہوئی اس کے تین حصے ہیں۔

پہلا یہ کہ حکومت کشمیر میں صورتحال جلدی سے تبدیل کر دے، لوگوں کے لئے آسانی پیدا کی جائیں، نمبر دو پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کی کشمیر میں مداخلت قبول نہیں ہے کیونکہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، کشمیر بھارت کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔

ایسا ہم نے 1951، 1963اور 2009میں کہا اور اب پھر ہمارا اقرار یہی ہے کہ کشمیر بھارت کا ہے‘‘۔مولانا صاحب! بتانا پسند فرمائیں گے کہ وہ ایسی جماعت کا صد سالہ جشن کیوں مناتے ہیں؟ مولانا صاحب سے چند سوال کچھ اور پاکستانیوں نے کئے ہیں:

(1) باجوڑ مدرسے اور لال مسجد میں شہادتیں ہوئیں، آپ خاموش رہے۔

(2) جب ایک سفارت خانے کو سینکڑوں کنال اراضی دی جا رہی تھی اور جب آپ کی محبوب حکومتیں سینکڑوں امریکیوں کو دھڑا دھڑ ویزے جاری کر رہی تھیں، کیوں خاموش رہے؟

(3) عافیہ صدیقی کی حوالگی، ممتاز قادری کی گرفتاری اور پھانسی پر چپ رہے، کیوں؟

(4) جب نواز شریف نے قادیانیوں کو بھائی بہنیں کہا، میڈیا کے روبرو خدا اور بھگوان کو ایک ہی کہا، کیوں چپ رہے؟

(5) کارگل پر غلط فیصلے پر کیوں خاموش رہے؟

(6) جب پرویز رشید نے مدرسوں کو جہالت کی فیکٹریاں کہا، جب ختم نبوتؐ کی ترمیم کو نواز دور میں چھیڑا گیا، آپ کیوں نہ نکلے؟

(7) دس برس کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے اور کشمیر کا تذکرہ نہ کر سکے، کیوں؟

آخر میں وصی شاہ کا شعر وضاحت کیلئے کافی ہے کہ

یہ تو چلتی نظر نہیں آتی

اس محبت میں جان ہے ہی نہیں

تازہ ترین