• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ شب ٹی وی شو میں ہمیں بُی طرح کھانستا دیکھ کر ایک ڈاکٹر دوست سے نہ رہا گیا۔ فون پر عیادت کرتے ہوئے وصیت کرنے کے انداز میں بولے،
”اور جو کچھ بھی کر لو مگر اپنے آپ کو ٹھنڈ سے بچاؤ اور بھوکے مر جاؤ مگر کم از کم پندرہ دن تک تو بازاری کھانے کا نام تک مت لو“ یہ بات موصوف تقریباً 70 مرتبہ کر چکے تو ہم نے سخت جھلاہٹ کے عالم میں وعدہ کر لیا کہ آپ تک اس قسم کی شکایت کبھی نہیں پہنچے گی۔
طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم تقریباً چار پانچ دن تو ضرور ہی صاحب فراش رہیں گے چنانچہ ابتدائی تین روز دیسی مرغ کی یخنی اور مکمل بیڈ ریسٹ کے ساتھ گزرے۔ گھر سے باہر نکلنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اس لئے ٹھنڈ لگنے اور بازاری کھانا کھانے کا امکان بھی صفر تھا۔ طبیعت کچھ سنبھلی تو ہمیں یخنی اور بستر دونوں ہی برے لگنے لگے۔
نہایت بھاری بلکہ بھدی آواز میں شو ریکارڈ کروایا اور رات تقریباً ایک بجے گھر واپس لوٹے۔ باہر نکلنے کو دل چاہا اور اپنے دوست دی نیوز والے صابر شاہ کو فون پر ورغلا کر ایک مشہور کافی شاپ پر بلایا تاکہ حالاتِ حاضرہ پر گفت و شنید بھی ہو سکے اور ساتھ ہی کوئی بے ضرر اور پرہیزی سا لائٹ ڈنر بھی ہو جائے۔ مذکورہ کافی شاپ تو پچھلے دنوں آگ لگنے کے سبب مرمت کے مراحل سے گزر رہی ہے مگر اس کے آس پاس بھی اسی قماش کی پانچ چار کافی شاپس کھل چکی ہیں جن میں سے ایک ہمیں صرف اس لئے پسند ہے کہ اس میں عموماً ہو کا عالم ہوتا ہے۔ فرنیچر نہایت پراسرار سا ہے جبکہ پورا ماحول آسیب زدہ لگتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ خوش لباس قسم کے ویٹر شکل و شباہت سے ہی بھتنے اور جنات دکھائی دیتے ہیں۔ منیجر صاحب ہیں تو بہت اچھے مگر اپنے نیم روشن کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے وہ بھی کسی چڑیل کے بچے لگتے ہیں!
رات بارہ بجے کے بعد اس دیو مالائی قہوہ خانے میں اول تو کوئی گاہک آتا ہی نہیں اور اگر کوئی بھولا بسرا بدنصیب ادھر آ بھی نکلے تو تمام باوردی بھتنے پہلے تو سپاٹ چہروں کے ساتھ اس احمق کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے چلے جائیں گے گویا پوچھتے ہوں کہ ادھر کیا کرنے آئے ہو؟ کیا دیگر کافی بارز بند ہو چکی ہیں جو منہ اٹھائے ادھر آ نکلے ہو؟ بہرحال یہ بار ہمیں اپنی گھبیرتا اور پراسراریت کے سبب ہی اچھی لگتی ہے اور ہم اگر گھر سے باہر ہوں تو رات کا ابتدائی حصہ یہیں کاٹتے ہیں ہم نے اس کا نام بھوت کیفے رکھا ہوا ہے۔
رات تقریباً پونے دو کا عمل ہو گا کہ ہم گھر سے نکلے اور کافی شاپ کا قصد کیا۔ ظہور الٰہی روڈ پر پہنچے تو صابر شاہ نے فون پر صدمہ دیا کہ تمام کافی شاپس بند ہو چکی ہیں حتیٰ کہ حسین چوک کے آس پاس ساری سٹریٹ لائٹس بھی بجھ چکی ہیں۔ ہم گرتے پڑتے اسی مقام پر پہنچے جہاں صابر شاہ نے اپنی سیاہ گاڑی پارک کر رکھی تھی۔ تمام کافی شاپس اور ملحقہ دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ اردگرد پھیلا اندھیرا اور قبرستان کی سی خاموشی بھوت کیفے کی گھمبیرتا کو چار چاند لگا رہی تھی۔
صابر شاہ نے مشورہ دیا کہ اس وقت ماسوائے ٹیمپل روڈ کے اور کہیں سے چائے نہیں ملنی چنانچہ بہتر یہی ہے کہ اپنے اپنے گھر واپس لوٹ چلیں، اور خبروں کا تبادلہ تو ہم فون پر بھی کر سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ ہم نے شاہ جی کا مشورہ سنا ان سنا کرتے ہوئے انہیں ٹیمپل روڈ چلنے کو کہا، سڑکیں
چونکہ خالی تھیں، اس لئے بمشکل دس بارہ منٹ میں ہم وہاں پہنچ گئے۔ سن 1986 کے بعد ہم یہاں پہلی مرتبہ آئے تھے مگر کیا مجال تو اس ماحول میں ایک انچ کا فرق بھی پڑا ہو۔ یہ تب کی بات ہے جب ہم ایک انگریزی اخبار میں نئے نئے رپورٹر بھرتی ہوئے تھے اور ہماری تقریباً ہر دوسری شام ایم اے نیازی اور حسیب بٹ کی رفاقت میں یہیں گزرا کرتی ہم نے صابر شاہ کی گاڑی کے بالکل ساتھ اپنی گاڑی بھی پارک کر دی اور نیچے اتر کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ایک نہایت خوش اخلاق ویٹر نے پلک جھپکنے میں ہی سڑک کنارے فٹ پاتھ پر پڑے دو عدد بیہودہ سے بنچ سیدھے کر کے ہمارے بیٹھنے کا بندوبست کر دیا۔ ہمیں شک گزرا کہ یہ ویٹر بھی اسی پرانے دور کا ہے جس نے ہمیں تقریباً ربع صدی بعد بھی پہچان لیا ہے۔ حتیٰ کہ ہمیں وہ عجیب الخلقت سا شخص بھی اسی دور کی نشانی نظر آیا جو ہر دس منٹ بعد ہمارے قریب پہنچ کر کوئی بیہودہ سی خود کلامی کرتا اور پھر خلا میں موجود کسی قبیحہ چیز کو قہر آلود نظروں سے گھورتے ہوئے زیر مونچھ ایک دلچسپ بلکہ ”ناممکن“ سی گالی دیتا اور پھر کسی طرف نکل کھڑا ہوتا۔ سڑک کی دوسری جانب ایک نہایت موٹا شخص بوسیدہ سی صف پر پھیلا انتہائی واہیات پوز بنائے چمپی کروا رہا تھا۔ ہمیں یقین تھا کہ یہ بھی اسی دور کی ہی نشانی ہے کیونکہ اس قدر خود اعتمادی کے ساتھ اتنا واہیات پوز بنا کر چمپی کروانا کسی نئے آدمی کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا۔ ویٹر چائے کے دو گلاس لے آیا۔ آج ایک طویل عرصے بعد گلاسوں میں چائے پینا بہت بڑی عیاشی محسوس ہوا۔ صابر شاہ کو نجانے کیا سوجھی کہ ہمارے لئے یہاں کی ایک خاص سوغات یعنی ”بند پلستر“ بھی منگوا لیا جو ہم نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر چٹ کر ڈالا۔ یہ سب کچھ اس قدر بے خیالی میں ہوا کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ رہا کہ ہم آج کل نزلہ، زکام اور کھانسی کے وائرس کا شکار ہیں اور ہمیں ٹھنڈ اور بازاری کھانے سے شدید پرہیز بتایا گیا ہے ٹھنڈ ہمیں باقاعدہ لگ چکی تھی اور دنیا بھر کی آلودگی اور آلاشیوں سے بھرا نہایت لذیز بند پلستر ہم چار نوالوں میں ہڑپ کر چکے تھے۔ بند پلستر کی تاثیر کچھ ایسی تھی کہ گھر پہنچنے تک ہماری کھانسی اب باقاعدہ ”بکرا کھنگ“ میں بدل چکی تھی ٹھنڈ کے سبب بخار بھی ہونے لگا تھا اگلا دن چڑھنے تک ہماری حالت خاصی خراب ہو چکی تھی۔ صبح ہوتے ہی اپنے ڈاکٹر دوست کا تازہ ایس ایم ایس پڑھا کہ ”امید ہے تم حسب وعدہ ٹھنڈ سے بچ رہے ہو گے اور بازاری کھانا کسی صورت نہیں کھاؤ گے!!“
تازہ ترین