• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ ایک بار پھر بے چینی کا شکار نظر آرہا ہے، یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ایم کیو ایم کی ایک ایم این اے کشور زہرا نے چند دن پہلے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس کے تحت سندھ کی صوبائی حدود تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے،

اس بات سے قطع نظر کہ یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے سندھ بھر میں کیا ردعمل آیا ہے، فی الحال میں اس سلسلے میں اپنی معروضات پیش کرنا چاہوں گا کہ اس بل کے ذریعے جو تبدیلی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے بارے میں آئین کیا کہتا ہے تاکہ قارئین یہ شقیں پڑھنے کے بعد خود ہی حتمی رائے قائم کرسکیں، اس بل کا تعلق آئین کے آرٹیکل 239سے ہے، اس آرٹیکل کی چار شقیں ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) آئین میں ترمیم کرنے کے لئے کوئی بل دونوں ایوانوں میں سے کسی ایک میں زیر غور لایا جاسکتا ہے اور جب ایک ایوان سے یہ بل اس ایوان کی ٹوٹل ممبر شپ کی دو تہائی یا اس سے زیادہ ممبران کی طرف سے منظور ہوجاتا ہے تو بعد میں یہ بل دوسرے ایوان میں پیش کیا جائے گا۔

(2) جب یہ بل دوسرے ایوان سے بھی جملہ ممبران کی کم سے کم دو تہائی اکثریت سے منظور ہوجاتا ہے تو یہ بل آئین کی اس آرٹیکل کی شق نمبر (4)کی شرائط کے تحت منظوری کے لئے صدر کو پیش کیا جائے گا۔

(3) شق نمبر 1کے تحت یہ بل جس ایوان میں بھیجا جاتا ہے وہاں جملہ اراکین کی کم سے کم دو تہائی اکثریت سے ترمیم کے بعد شق 4کی شرائط کے تحت منظوری کے لئے صدر کو پیش کیا جائیگا۔

(4) آئین میں ترمیم کرنے والا ایسا بل جس کے نتیجے میں ایک صوبے کی حدود تبدیل کرنا مطلوب ہو، اسے منظوری کے لئے تب تک صدر کو نہیں پیش کیا جائے گا جب تک اس صوبے کی اسمبلی سے یہ بل کم سے کم جملہ ممبران کی دو تہائی اکثریت سے منظور نہیں ہو جاتا۔

جب ہم آرٹیکل 239کی ان چاروں شقوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اس سلسلے میں قطعی اختیارات متعلقہ صوبائی اسمبلی کے پاس ہیں۔ اگر مزید گہرائی سے اس ایشو کا جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ بل نہ قومی اسمبلی سے منظور ہوسکتا ہے اور نہ ہی سینیٹ سے منظور ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ اگر ایم کیو ایم کے ساتھ پی ٹی آئی اور جی ڈی اے بھی ساتھ دے تو بھی ایوان میں اس بل کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل نظر آتی ہے مگر اب تو جی ڈی اے اور پی ٹی آئی کی طرف سے آنے والے بیانات کے بعد اس بل کے لئے ایک تہائی ممبران بھی اگر ووٹ دیں تو بڑی بات ہے۔

واضح رہے کہ سب سے پہلے سندھ سے پی ٹی آئی کے اقلیتی پارلیمنٹری سیکرٹری لال مالہی کا بیان آیا کہ اگر پی ٹی آئی نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا تو وہ پی ٹی آئی سے الگ ہو جائیں گے،

اسی دوران سندھ کے گورنر کا بیان آیا ہے کہ پی ٹی آئی سندھ کے حصے کرنا نہیں چاہتی اور اس بل کی حمایت نہیں کرتی، اس دوران پیر پگارا کی فنکشنل لیگ اور جی ڈی اے کی سندھ اسمبلی کی ممبر نصرت سحر عباسی نے کہا ہے کہ پیر پگارا کبھی نہیں چاہیں گے کہ سندھ تقسیم ہو اور وہ سندھ کی وحدت کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں،

اسی دوران سندھ بھر کی قوم پرست پارٹیوں کی طرف سے انتہائی شدید ردعمل آیا اور آ رہا ہے۔ ایک دن پہلے سندھ اسمبلی میں ممبران کی بھاری اکثریت نے اس بل کو مسترد کردیا۔ ایم کیو ایم کے بل کو مسترد کرتے ہوئے سندھ اسمبلی کے پی پی ممبران نے اعلان کیا کہ سندھ کی وحدت کی خاطر وہ ہر حد پار کرسکتے ہیں۔

خود اسپیکر نے کہا کہ ’’کیا آپ سندھ کی تقسیم کے حامی ہیں؟، ہم مرجائیں گے مگر سندھ کو تقسیم ہونے نہیں دیں گے‘‘۔ اس مرحلے پر کچھ ممبران نے انتہائی جذباتی انداز میں سندھ کا یہ تاریخی نعرہ لگایا کہ ’’مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘۔

دریں اثنا چند دن پہلے سندھ کی ایک قوم پرست پارٹی ’’سندھ ترقی پسند پارٹی‘‘ کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے اس ایشو پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس رویے کے خلاف نہ صرف سندھ کے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالی جائیں گی بلکہ خاص طور پر 26اکتوبر سے 3نومبر تک کراچی میں ایک ہفتے کے لئے لانگ مارچ کیا جائے گا۔

اس مرحلے پر انہوں نے امید ظاہر کی کہ عام اردو بولنے والے جو ہمارے بھائی ہیں وہ اس نفرت انگیز صورتحال کا ساتھ نہیں دیں گے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین