• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض کی کرشماتی شخصیت کے آگے سب بونے دکھائی دیتے ہیں

بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فیض احمد فیض کے سامنے کسی دوسرے کا چراغ نہیں جلتا تھا مگر حقیقتاً واقعہ یہ ہے کہ فیض صاحب کی موجودگی میں چھوٹے موٹے چراغ جلے تو مگر روشن نہ ہو پائے۔ فیض نے اردو شاعری کو ایک نیا نسب ہی نہیں دیا بلکہ نئی شریعت کی بشارت بھی دی ہے۔ 13 فروری کو فیض کی سالگرہ کا دن تھا۔ شاعر، ادیب، صحافی، ٹریڈ یونین لیڈر اور ثقافتی اداروں کے بانی کی حیثیت سے فیض احمد فیض نے ہر شعبے میں عظمت کے نشان چھوڑے ہیں۔ فیض اپنے عہد کی آواز نہیں بلکہ ”عہد“ ان کی آواز بن گیا۔ فیض بہت پڑھا لکھا شاعر تھا، صرف چار سال کی عمر میں حفظ قرآن کا آغاز کیا۔ 1928ء میں مرے کالج سیالکوٹ کی ادبی تنظیم اخوان الصفا کے پہلے طرحی مشاعرے کے لئے فیض نے جو غزل کہی اس کا پہلا شعر تھا
لب بند ہیں ساقی میری آنکھوں کو پلا دے
وہ جام جو منتِ کش صہبا نہیں ہوتا
یہ شعر بہت مقبول ہوا اور اسی مشاعرے سے فیض کی ادبی شہرت کا آغاز ہوا میرے حساب سے شاعری تمام تر فن نہیں ہے کہ اس پر قابو حاصل کرکے کوئی شاعر بن جائے، یہ تمام تر ایک خداداد صلاحیت یا قابلیت بھی نہیں ہے، اس کا ایک رشتہ اور تعلق شاعر کی شخصیت اور اس کی فکری کمٹمنٹ سے بھی ہے اور شخصیت کا ایک بنیادی وصف احترام آدمیت کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کا احترام ہے جس میں اپنی خودی کی نگہبانی، اپنے ضمیر کی پاسبانی اور اپنے وجدان و آگہی کی راہبری میں اپنی بات کو بھرپور طریقے اور پوری طاقت سے کہنے اور اس کی خاطر مر مٹنے کا حوصلہ نہ ہو اس کی شخصیت تہی مایہ اور بے نشان ہے۔ فیض نے کسی جگہ لکھا ہے کہ ”شاعر ہو یا عام آدمی اس کے لئے زندگی اور موت، جنگ و امن، آسودگی و بھوک انصاف و ظلم، مساوات اور طبقاتی استحصال، ترقی پسندی اور رجعت پسندی، میں انتخاب کرنا ضروری ہے۔“ کوئی بھی شاعری پیغمبرانہ نہیں ہوتی کہ اس پر ایمان لاتے ہی بنے چونکہ ادب میں کوئی چیز وحی کا درجہ نہیں رکھتی اسی سبب ادب کو انسانی معاشرے میں بلاتفریق مذہب و ملت قبولیت اور زندگی حاصل ہے اور پھر ادب ایمان کا نام ہے بھی نہیں کہ اس میں اقرار سے انکار کی طرف سفر ہوتا ہے اور ایمان ہے کہ صرف اقرار چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں، آپ اور وہ فیض# سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
فیض صاحب عہد جدید کے کلاسیک صاحب طرز شاعر ہیں۔ ان کے کلام کی اثر پذیری اور تاثر انگیزی ایک عجیب نمونہ ہے کہ وہ پڑھنے والوں کو متاثر تو بے حد کرتے ہیں مگر ان کے تاثر کی تقلید آسان نہیں بلکہ مشکل تر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا طرز فغاں اور طرز بیاں لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں جاگزیں ہوگیا مگر ان کے بعد آنے والوں میں کوئی ان کی کوشش بسیار کے باوجود تقلید نہ کر سکا۔ اس امر پر غور کریں تو یہی وہ نقطہ ہے جو سمجھ میں آتا ہے کہ ادب میں استفادہ تو عام طور پر ممکن ہے مگر اس شعبے میں جانشین ایک سراب ہے وہ چاہے احمد فراز ہی کیوں نہ ہو۔ فیض کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جل پایا وہ چاہے ن، م راشد ہو یا احمد ندیم قاسمی، مجاز ہو، علی سردار جعفری ہو یا کیفی، فیض اپنے عہد کی آواز ہے، دوسرے لفظوں میں ہم سب فیض کے عہد میں جی رہے ہیں، میں مانتا ہوں فیض کی ہمہ گیر مقبولیت، شہرت، عزت اور چاہت کے باعث ان کے معاصر شعراء پر کم کم توجہ دی گئی ہے۔ جہاں تک احمد ندیم قاسمی کا تعلق ہے وہ نہ تو اتنے بڑے شاعر تھے کہ ان کو اپنے عہد میں اس قدر مقبولیت حاصل ہوتی اور نہ ہی اتنے غیر اہم شاعر تھے کہ ان کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ معاصر سے یاد آیا کہ میرے دوست عطاء الحق قاسمی کے جریدے ”معاصر“ میں فیض صاحب کے حوالے (یا مخالفت) سے احمد ندیم قاسمی کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا یہ شاید آپ نے بھی پڑھا ہوا سے پڑھنے کے لئے ہر قاری کو اپنی ناک پر رومال رکھنا ہوگا کہ ”بو“ کی شدت جہاں دوسروں نے محسوس کی وہاں میں نے بھی کی۔ عجیب اتفاق ہے کہ فیض احمد فیض اور فیض شکن (احمد ندیم قاسمی) کا تعلق ماہ نومبر سے ہے۔ فیض کی وفات 20 نومبر کو ہوئی تو احمد ندیم قاسمی کی پیدائش کا تعلق بھی 20 نومبر ہی سے ہے۔ فیض کے باب میں کچھ کہنا تو سورج کو چراغ دکھانا ہے البتہ قاسمی صاحب زندگی بھر اپنے گوناگوں نظریات اور بہت زیادہ نظر انداز کئے جانے پر سیخ پا ہوتے رہتے تھے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس کے لئے وہ خود بھی بڑی حد تک ذمہ دار تھے۔ دوسروں کو برا بھلا کہہ کر (وہ بھی فیض جیسے شاعر کو) برا بھلا سننا ہی پڑتا ہے جو کہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری ہے ہماری تہذیبی روایات کے مطابق بعد مرگ یہ سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے اگرچہ احمد ندیم قاسمی نے فیض کے بعد از مرگ بھی یہ سلسلہ جاری رکھا تھا اس لئے کوئی بھی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ احمد ندیم قاسمی کی آنکھیں بند ہو جانے پر بھی یہ سلسلہ رک پائے گا۔ مجھے بہرحال یہ نہیں دیکھنا کہ احمد ندیم قاسمی کے بارے میں کسی نے کیا کہا اور کون کہا کہہ رہا ہے میرے حساب سے قاسمی صاحب کا المیہ یہ تھا کہ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر خود کو فیض کے ہم پلہ سمجھتے تھے اور دوسری وجہ ان کی فکر کی بلندی اور حوصلہ کی پستی نے انہیں نفسیاتی مریض بنا دیا تھا۔ یوں وہ تنہا جیئے اور تنہاہی اس دنیا سے سدھار گئے اور قصہ پارینہ بن گئے۔
آل احمد سرور نے لکھا ہے ”فیض صاحب طرز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باشعور شاعر بھی ہے اور ایسا کم از کم برصغیر کی حد تک تو کوئی دوسرا شاعر نہیں ہے۔“ اثر لکھنوی کا کہنا ہے فیض احمد فیض کی شاعری ترقی کے مدارج طے کرکے اس نقطہ عروج پر ہیں جہاں تک شاید ہی کسی دوسرے ترقی پسند اور کمیٹڈ شاعر کی رسائی ہو۔“ فیض کی شاعری ابتداتا انتہا اعجاز ہے اگر بذات خود فیض پر نزول آغاز ہے تو انتہا یہ ہے کہ حرف مبین کے عجائب آج لگ بھگ تین دھائیوں کے بعد بھی برقرار ہیں اور آئندہ بھی اس کے تمام ہونے کے ہلکے سے بھی آثار نظر نہیں آتے بلکہ ماضی میں اس کی شاعری کی تغیر و تشریح بھی ہوتی رہی ہے۔ آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔
کوئی ساعت، کوئی لمحہ، کوئی پل اپنا نہیں
وقت شاید پھنس گیا ہے دشمنوں کے درمیاں
تازہ ترین