دیکھئے نا، ابھی شادی کو تیرہ دن ہوئے تھے، ابھی دلہن ہے اور اس نے رٹ لگا رکھی ہے کہ مجھے تو اور پڑھنا ہے۔
آخر کو مرد کو غیرت آئی اور اس نے اٹھائی پستول، اس پڑھنے کی رٹ کو خاموش کر دیا۔ ہے نا غیرت مندی کی بات، استاد نے نویں جماعت کے بچے کو بار بار سبق یاد کرنے کو کہا، مگر وہ خوبصورت تھا،
یہ اور بات ہے مگر پڑھائی میں اتنا کند ذہن تھا کہ استاد کی غیرت نے جوش مارا اور اسکو وہیں ڈھیر کر دیا۔ انصاف سے آپ ہی بتائیں کہ 8سال کا چھوکرا روز کہے جا رہا ہے، مجھے تنخواہ دیں، مجھے تنخواہ دیں۔
استاد کو بھی تو غصہ آگیا۔ اس نے ساتھ ہی ر کھی آرا مشین میں اس کا ہاتھ دے دیا، آخر غیرت بھی کوئی چیز ہے۔
اب یہ بھی کوئی نئی بات ہے کہ لوگوں نے چیخنا شروع کر دیا ہے کہ پولیس والوں نے تھانوں کے علاوہ بھی عقوبت خانے بنائے ہوئے ہیں۔
انکی عقل پہ مار، بھئی یہ تو پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی گویا کہ جہیز میں ملے تھے۔
آخر دلی دروازہ چوکی اور لاہور قلعہ میں لوگوں کو 7فٹ کی کوٹھڑی میں رکھ کر اور سووالٹ کا بلب سر پر رات بھر جلا کر ان کو خرد مندی سکھائی جاتی تھی کہ بےوقوفو ! جو سیاست دان بولیں وہی کرو اور کہو، یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ تم لوگ آزادیٔ اظہار چاہتے ہو، بنیادی حقوق مانگتے ہو، ان دیسی انگریزوں نے 72سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں بنیادی حقوق نہیں دیئے۔
اگر دیئے ہوتے تو ہم کبھی کسی کا پرو گرام بند کر کے، بنیادی حقوق چھیننے کی ریہرسل نہ کرتے، نہ عمل کرتے۔
یہ دیکھیں نا امریکی مع ٹرمپ کے کتنے بے وقوف ہیں اور وہ جانی پہچانی ایکٹریس بھی، اس نے رشوت دے کر، بچی کو اسکول میں داخل کروایا۔
عقل مندوں نے جب سنا تو اسے پندرہ دن کے لئے جیل میں بند کر دیا۔ نہ تھا پاکستان ورنہ ایک معمولی وزیر نے اپنے بیٹے کے میٹرک میں نمبر بڑھوائے، کسی نالائق رپورٹر نے لکھدیا۔ وہ تو اناپ شناپ لکھتے رہتے ہیں، اگلےدن اسی اخبار میں روٹی لپیٹ کر نانبائی نے دے دی، قصہ ہی ختم ہو گیا۔
ایک بچی زینب کا مقدمہ سامنے آیا، دنیا چیخ اٹھی، اس بدبخت کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد، بچوں کے ساتھ زیادتیاں بند ہو گئیں۔
اگر اجازت ہو تو عالمی سطح پر شائع شدہ خبر کو دہرائوں کہ سب سے زیادہ زیادتیاں تو مدرسوں میں ہوتی ہیں۔ بچہ اگر مر جائے تو اس کو بےحرمت نہیں کرتے۔ مسجد کی چھت پر اس کا لاشہ ڈال دیتے ہیں۔
یہ بھی جھوٹ تو نہیں کہ بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی برابر ہوتی ہے۔ ہیں نا غیرت مند ہماری اسمبلی کے ممبران۔ انہوں نے یک زبان، شادی کیلئے لڑکی کی عمر 18سال کرنے سے انکار کردیا۔ جوان بچی اگر بھاگ گئی تو کہہ دیں گے ہم نہ کہتے تھے جلد بیاہ دو۔
یہ جو آئے دن، لوگوں کے سوٹ کیسوں سے سیروں اور کبھی منوں ہیروئن نکلتی ہے، آخر وہ جاتی کہاں ہے اور وہ جو غیر ملکی شراب برآمد ہوتی ہے وہ آخر کن ملکوں کے پاس جاتی ہے کہ اگر کہیں نہ مل رہی ہو، صاحب بہادر کو فون کریں آدھے گھنٹے میں بندہ لے کر حاضر ہو جاتا ہے۔ وہ کیسے!
یہ شاعر لوگ بھی الٹی سیدھی ہانکتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں آنکھیں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا حالانکہ ہمارے ہاں ڈینگی نہیں پکڑے جاتے، البتہ ہر دوسری گلی سے چھپے ہوئے ڈاکو اور دہشت گرد گرفتار کر لئے جاتے ہیں۔ اور یہ جو آئے دن پٹرول کے ٹینکر الٹ جاتے ہیں۔
ان کا پٹرول کہاں جاتا ہے۔ وہ جو لوگوں کو ہپناٹائز کر کے، دکانوں کا سامان لے جاتے ہیں، وہ کیا پولیس کو بھی ہپناٹائز کر دیتے ہیں۔ کسی بھی گائوں میں چلے جائو، علاقے کے سب سے خطرناک شخص کے سر پر پگڑی باندھی جا رہی ہوتی ہے۔
ہمارے مرد غیرت مند ہیں اس لئے مرد کے سر پر ہی پگڑی باندھتے ہیں۔ دراصل ہم لوگ ’’ان پڑھ جمہوریت‘‘ کے علمبردار ہیں۔
میں ان کی غیرت کی کون کون سی علامتیں بتائوں۔ کبھی لاڑکانہ، کبھی گھوٹکی میں جوان بچیوں کو مار کر خودکشی قرار دیتے ہیں۔
کبھی پتوکی میں بچوں کو زیادتی کے بعد کھیتوں میں پھینک جاتے ہیں۔ کبھی صلاح الدین جیسے غریب کو ہی کیا، ہر روز کسی نہ کسی غریب کو پولیس والے خود ہی مار دیتے ہیں، آگے کیا کہوں غیرت مند بھائی ماں اور بہن کو جائیداد اور رشتے کے تنازعے میں قتل کر دیتے ہیں،
لاڑکانہ میں کتے کے کاٹے کی ویکسین ہی نہیں مگر میں کیا کہوں، جب بھٹو خاندان سے منسوب تمام کالجوں کے طلبہ فیل ہو جائیں، بلاول میاں! اپنے شہر لاڑکانہ کی بھی خبر رکھو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)