• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف آج کل سندھ میں بڑے زور شور سے اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں اور جلسہ عام سے خطاب کررہے ہیں۔ وہ اپنے خطبات میں اگرچہ دیگر باتیں بھی کررہے ہیں لیکن اس بات پر زیادہ زور دے رہے ہیں کہ وہ سندھ سے ڈاکووٴں کا خاتمہ کردیں گے۔ اپنی ہر تقریر میں اپنی یہ بات وہ بار بار دہراتے ہیں۔ پہلے وہ ان ڈاکووٴں کا ذکر کرتے تھے جو ڈکیتی کی وارداتیں کرتے تھے۔ اب وہ پیپلزپارٹی والوں یعنی سندھ میں گہرا اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدانوں کو بھی ڈاکو قرار دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بھٹو خاندان کے آبائی علاقے رتوڈیرو میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پہلی مرتبہ ”سرکاری اور نجی ڈاکو“ کی اصطلاح استعمال کی اور کہا کہ ” ہم اقتدار میں آکر سرکاری اور نجی ڈاکووٴں کا خاتمہ کریں گے“۔
سندھ میں بار بار ڈاکو راج کا ذکر کرکے میاں نواز شریف شاید اس بات پر خوش ہوں گے کہ انہوں نے سندھ کے ایک بڑے مسئلے کی نشاندہی کر دی ہے اورڈاکووٴں کے خاتمے کا وعدہ کرکے وہ سندھیوں کا دل جیت لیں گے لیکن میاں صاحب کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ وہ دنیا میں سندھ کا امیج خراب کررہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے سندھ ڈاکووٴں کی سرزمین ہے۔ میاں نواز شریف کی ان باتوں سے سندھ اور سندھیوں کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈکیتی کی وارداتیں صرف سندھ میں ہوتی ہیں پنجاب، بلوچستان،خیبرپختونخوا ،گلگت بلتستان ،آزاد کشمیر اور قبائلی علاقہ جات میں کیا ڈاکو نہیں ہیں؟ اگر ڈکیتی کی وارداتیں سندھ سے باہر پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی ہوتی ہیں تو میاں نواز شریف ان علاقوں میں جلسہ عام میں ایسی بات کیوں نہیں کرتے؟
یہ ہماری سیاست کا عظیم المیہ ہے کہ ہمارے قومی سطح کے بعض بڑے سیاستدانوں کو عوام سے ڈائیلاگ کرنا نہیں آتا اور وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنی سوچ کو چھوٹے چھوٹے دائروں میں محدود کئے ہوئے ہیں۔ یہ صرف میاں نواز شریف کا ہی نہیں بلکہ کچھ اور سیاستدانوں کا بھی مسئلہ ہے۔ قومی سطح کے کسی سیاستدان کو یہ باتیں زیب نہیں دیتی ہیں۔ میاں نواز شریف کی تقریروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ سندھ کے بارے میں مجموعی طور پرکیا سوچ رکھتے ہیں اور کسی طرح سفارت کاری والے الفاظ کا جامہ پہناکر جلسوں میں اس سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ ڈاکووٴں کی سرزمین نہیں ہے یہ وہ دھرتی ہے جس کے بیٹوں نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے دوران سندھیوں نے آمریت کے خلاف جس جرأت مندی اور بہادری کے ساتھ لڑائی کی، وہ اس خطے کی مزاحمتی تاریخ کا ایک عظیم اور قابل فخر باب ہے۔ یہ ایسی تحریک تھی جو تہذیبوں کو اعلیٰ اقدار سے مالامال کرتی ہے اور لوٹ مار اور موقع پرستی کی خباثتوں کو ختم کرکے قربانی کے جذبے سے تہذیبوں کو نئی طاقت فراہم کرتی ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ سندھ میں ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں لیکن یہ بھی غلط نہیں ہے کہ ڈکیتی کی وارداتیں ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوتی ہیں ۔ڈاکو سندھ کی شناخت نہیں، سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے جو اپنی تہذیب، ثقافت، فن و ادب اور اقدار کے حوالے سے نہ صرف آج بلکہ ماضی میں بھی قابل فخر تشخص کے ساتھ پہچانی جاتی رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسین نے کہا تھا کہ مجھے سندھ جانے دیں۔ سندھی وہ ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے لئے اپنی اسمبلی میں نہ صرف سب سے پہلے قرارداد منظور کی بلکہ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجر بھائیوں کے لئے اپنا سب کچھ لٹادیا۔
یہ بات میاں صاحب کے ذہن میں کس نے بٹھائی کہ سندھ میں ڈاکو راج ہے؟ اس سوال کا جواب وہ خود بہتر طور پر دے سکتے ہیں لیکن اس سوچ کا ایک تاریخی پس منظر ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ موجودہ پاکستان میں شامل دیگر علاقوں کے مقابلے میں سندھ واحد صوبہ ہے جس نے حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ سیاسی مزاحمت کی۔ حضرت شاہ عنایت شہید کی مزاحمتی تحریک اور انگریزوں کے خلاف پیرپگارا ششم صبغت اللہ شاہ راشدی شہید عرف سورھیہ بادشاہ کی مزاحمت کے اثرات آج تک سندھ میں موجود ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے سندھیوں نے ممبئی سے علیحدگی اور قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں اپنے اعلیٰ سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا اور سامراج مخالف مزاج رکھنے والی دھرتی کے طور پر اپنی شناخت کرائی۔ سندھ میں سیاسی تحریکوں کو کچلنے کے لئے انگریزوں کے زمانے سے سرکاری سرپرستی میں بدامنی پیدا کرنے کی روایت ڈالی گئی اور خصوصاً ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد سندھ میں نہ صرف نجی فوجیں بناکر انہیں لوٹ مار کی اجازت دی گئی بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت سرکاری سرپرستی میں رہزنی اور ڈکیتی کی وارداتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ شاہراہوں اور ریلوے ٹریکس کو غیر محفوظ بنادیا گیا ۔اس کے بعد ایک منظم پروپیگنڈے کے ذریعے آمریت کے خلاف برسرپیکار سندھ کے مزاحمتی تشخص پر کاری ضربیں لگائی گئیں اور سندھ سے باہر کے لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ سندھ میں ڈاکو رہتے ہیں۔ یہ سندھ کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی ایک خوفناک آمرانہ سازش تھی۔ اس طرح سندھ کے بارے میں ایک مخصوص سوچ پیدا کی گئی۔ اس منظم سازش کے حوالے سے کئی رپورٹس بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ میاں نواز شریف اس تاریخی تناظر میں سندھ کے بارے میں اپنی مخصوص سوچ کا دوبارہ جائزہ لیں تو بہتر ہوگا۔ جہاں تک سندھ میں زیادہ مقبولیت رکھنے والے سیاستدانوں کو ڈاکو کہنے کا سوال ہے تو اس سوچ کے ڈانڈے بھی ان لوگوں سے جاکر ملتے ہیں جنہوں نے ماضی میں احتساب کے نام پر ایبڈو اور پراڈو کے سیاہ قانون بنائے اور ان قوانین کا شکار پاکستان کے ان مقامی سیاستدانوں کو بنایا جنہوں نے تحریک پاکستان کے لئے اپنا تن، من، دھن قربان کردیا تھا۔
چھوٹے صوبوں میں جاکر عوام سے ڈائیلاگ کرتے ہوئے میاں نوازشریف کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں جس سے چھوٹے صوبوں کو شکایات ہیں۔ ایک بالادست گروہ یا قوم یا علاقے سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں، ادیب، دانشور اور صحافی کو زیردست یا کسی بھی وجہ سے احساس محرومی کا شکار قوم سے کس طرح مخاطب ہونا چاہئے؟ اس کے لئے انہیں الجزائر کی تحریک آزادی کے ایک حریت پسند فرانز فیسنن کی کتاب پر فرانس کے عظیم فلسفی اور دانشور ژاں پال سارتر کا دیباچہ پڑھنا چاہئے جس میں سارتر نے الجزائر پر قابض فرانسیسیوں کے رویوں پر بے رحمانہ تنقید کی اور الجزائر کے بارے میں فرانسیسیوں کی مخصوص سوچ کے بخیئے ادھیڑ دیئے ہیں یاپھر روس کے عظیم ناول نگار دوستوفسکی کے ناول پڑھنے چاہئیں جن میں مقبوضہ قوموں کے بارے میں روسیوں کی متعصبانہ سوچ کو کس طرح خود روسیوں کے لئے تباہ کن ثابت کیا گیا۔
تازہ ترین