• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب”سچی جمہوریت کی بحالی کے لئے کمر بستہ“شعلہ بیان ڈاکٹر طاہر القادری نے گزشتہ ماہ کینیڈا کی پُرسکون سرزمین سے اس دیس میں آکر دھماکہ خیز انداز میں اعلان کیا کہ ”انتخابات نظام کی درستی کے بعد ہونے چاہیں“ تو بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کو شک ہوا کہ ان کے ’عزائم ‘ کچھ اور ہیں اور یہ کہ ان کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ درحقیقت ڈاکٹر قادری نے اس شک کو یہ کہتے ہوئے مزید تقویت دی کہ منصفانہ انتخابات کرانے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اصلاح اور نگران حکومت کے قیام کے لئے عدلیہ اور دفاعی اداروں کو بھی آئینی طور پر”اسٹیک ہولڈرز“ سمجھتے ہوئے مشاورت کے عمل میں شریک کیا جائے۔ قادری صاحب کے اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کے دوران اتفاقاً سپریم کورٹ کی طرف سے آنے والے ایک فیصلے، جس میں نیب کو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کی ہدایت کی گئی تھی، کو بھی دھرنے کی روشنی میں دیکھا گیا بلکہ محو ِ خطاب قادری صاحب نے حاضرین کو مبارک باد دیتے ہوئے نوید سنائی کہ ” آدھا کام ہو گیا ہے“ جبکہ باقی کا کام ”کل “ پر چھوڑ دیا گیا۔ اس سے بھی خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں ”اسٹیبلشمنٹ“ تو اس ڈرامہ نما دھرنے کے پیچھے نہیں… کہ کام مرحلہ وار ہوتے نظر آرہے تھے؟
تاہم جب کہ بہت سے حقائق واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ ڈاکٹر قادری کی انقلابی تقاریر یا اُن کی سیاسی قلابازیوں سے ہرگز متاثر نہیں ہوئی ہے۔ اس نے ڈاکٹر قادری کی طرف سے الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کے لئے دی جانے والی درخواست کو بعض آئینی وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ درخواست گزار دہری شہریت رکھنے کی بنا پر ایسی درخواست دینے کا اہل نہیں ہے۔ یوں درحقیقت عدلیہ نے ڈاکٹر صاحب کی سرزنش بھی کی ہے کہ وہ ملکہ الزبتھ دوم سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے باوجود پاکستان کے آئینی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔
دو وجوہات کی بنا پر اسے ایک غیرمعمولی فیصلہ قراردیا جا سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آئین دہری شہریت کے حامل افراد کو آئینی معاملات میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے نہیں روکتا ہے۔ درحقیقت آئین دہری شہریت کے حامل شہریوں پر صرف ایک قدغن لگاتا ہے کہ وہ ارکان ِ اسمبلی نہیں بن سکیں گے، اس کے علاوہ اُن کو شہریت کے تمام حقوق، جیسا کہ جائیداد کی خرید وفروخت یا ووٹ ڈالنا وغیرہ، حاصل ہیں۔ اب قادری صاحب کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ دہری شہریت کے حامل شہریوں پر ایسی پابندیاں عائد کر رہی ہے جو آئین میں درج نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے قادری صاحب کی حب الوطنی اور سیاسی ساکھ پر جارحانہ سولات اٹھائے اور ان پر”نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے“ کے حوالے سے سخت تنقید بھی کی گئی۔ اس طرح سپریم کورٹ نے درخواست کے آئینی پہلوؤں کا جائزہ لینے کی بجائے اسے سیاسی انداز میں پرکھا۔ عدالت نے اُنہیں184(3) جو کہ بنیادی حقوق اور مفاد ِ عامہ کے معاملات کو زیر ِ بحث لاتا ہے، کے حوالے سے بات کرنے کی اجازت نہ دی۔ اسی طرح عدالت نے اُنہیں آرٹیکل 199 کا حوالہ دینے کی بھی اجازت نہ دی کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت عوامی نمائندگان کی اہلیت کے حوالے سپریم کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ کی سطح پر درخواست دی جا سکتی ہے۔ اس پر ڈاکٹر قادری آپے سے باہر ہو گئے اور اُنہوں نے سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا عدالت نے اُن کا کیس میرٹ کی بنیاد پر نہیں سنا بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان اُن کی کینیڈا کے ساتھ وفاداری کے حوالے سے سوال اٹھاتے رہے۔ دہری شہریت پر تنقید کے جواب میں ڈاکٹر قادری نے بھی چیف جسٹس صاحب سے سوال کیا کہ اُنہوں نے بھی تو پی سی او کے تحت حلف اٹھاکر1999ء کے مشرف کے شب خون کی توثیق کی تھی۔ اس طرح قادری صاحب نے بھی چیف جسٹس صاحب کی آئین کے ساتھ وفاداری پر تنقید کی۔
ڈاکٹر قادری اور چیف جسٹس صاحب کے درمیان ہونے والے گرما گرم جملوں کے تبادلے نے عدالت کی سنجیدہ اور باوقار فضا کو قدرے مکدر کردیا۔ ایک مرحلے پر عدالت نے ڈاکٹر صاحب کو وارننگ دی کہ وہ اپنی زبان پر قابو رکھیں ورنہ وہ توہین ِ عدالت کے مرتکب قرار دیئے جائیں گے لیکن اس وارننگ کا اُن پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ اُ ن کا لہجہ مزید سخت ہو گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں پڑا ہے کیونکہ طرفین ماضی میں بھی ایسے معاملات میں بھرپور عزم کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
اب قادری صاحب کے پاس آئینی طور پر دو اور سیاسی طور پر ایک راستہ ہے۔ آئینی محاذ پر وہ سپریم کورٹ کے سامنے نظرثانی کے لئے اپیل دائر کر سکتے ہیں یا پھر اپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے کسی رکن، جو صرف پاکستانی شہریت رکھتا ہو، کی طرف سے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لاہور یا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جا کر آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دے کر الیکشن کمیشن کے خلاف اعتراضات اٹھا سکتے ہیں۔ سیاسی طور پر وہ جارحانہ رویّے کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جیل چلے جائیں تاکہ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہیں کہ وہ دہری شہریت کے حامل لاکھوں پاکستانیوں، جو دیار ِ غیر میں محنت کرتے ہوئے پاکستان کو اربوں ڈالر زرمبادلہ کما کر دیتے ہیں، کے حقوق کے لئے قربانی دے رہے ہیں۔ اسی طرح وہ پاکستانیوں کی بھی حمایت حاصل کر سکیں کہ وہ انتخابی عمل کو شفاف بناتے ہوئے دھوکے بازوں اور چوروں کو ملکی سیاست سے نکال باہر کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس سارے عمل میں بہت سے تضادات سامنے آئے ہیں۔ سب سے پہلے قادری صاحب نے سپریم کورٹ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نگران حکومت کے قیام کے لئے سپریم کورٹ سے بھی مشاورت کی جائے لیکن اب وہ سخت زبان استعمال کرتے ہوئے اس پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی دوران میڈیا کے وہ حلقے جو کچھ دیر پہلے قادری صاحب کی تعریف کررہے تھے کہ وہ پارلیمینٹ کو دھوکے بازوں سے نجات دلانے کے لئے میدان میں آئے ہیں، اب وہ سپریم کورٹ کی تضحیک کرنے پر اُنہیں آڑھے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ وہ لوگ جو سپریم کورٹ اور ڈاکٹر قادری کے مابین کسی ”ساز باز“ کی بو سونگھ رہے تھے، کو شرمندگی کا سامنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ”سازش“ نہایت پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔
تازہ ترین