• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ساڑھے تین ہزار قبل مصر میں پیدا ہوا ۔میں فرعون تھا ۔میں ایک عظیم الشان سلطنت کا شہنشاہ تھا، ہزاروں کنیزیں اور غلام میرے تصرف میں تھیں، میرے منہ سے نکلا ہوا ہر حرف خدائی حکم سمجھا جاتا تھا۔ میرے سپہ سالار،فوج کے جوان ،امور مملکت کے نگران ،وزیر ،مشیر ،درباری ،سرکاری اہلکار سب نے میری ذاتی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا تھا۔میرے ایک اشارے پر لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے ہوا کرتے تھے ۔مجھے میرے کاہن نے بتایا تھا کہ فرعون مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوتے ہیں اور پھر ویسے ہی بادشاہ بن کر دنیا میں واپس آتے ہیں ۔اسی لئے میں نے اپنے لئے اہرام تعمیر کروائے ،ان میں سونے چاندی کے زیورات رکھوائے ،ضرورت کی تمام اشیا محفوظ کیں اور حکم دیا کہ مرنے کے بعد مجھے حنوط کرکے اہرام میں لٹا دیا جائے اور میرے ساتھ تمام غلاموں اور کنیزوں کو بھی اہرام میں ہی دفن کر دیا جائے تاکہ دوبارہ زندہ ہونے پر مجھے کسی قسم کی پرابلم نہ ہو ۔میں مصر پر پچیس برس حکومت کرنے کے بعد فوت ہو گیا ۔
میں ایک غلام ہوں ،دو ہزار برس قبل سلطنت روم کے ایک چھوٹے سے شہر میں پیدا ہوا ۔میرا باپ بھی ایک غلام تھا ۔میں نے اپنے باپ کو ہمیشہ مالک کے حکم کی بجاآوری کرتے دیکھا اور جلد ہی یہ بات سیکھ لی کہ ایک اچھا غلام وہی ہوتا ہے جو اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرے۔ہمارے شہر میں غلاموں کی منڈیاں لگا کرتی تھیں ،جہاں امراء بولیاں لگا کر ہمیں خریدا کرتے تھے ،ان میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ بچے کم قیمت پر بکتے جبکہ جوان عورتوں اور مردوں کی اچھی بولی لگتی ۔خریدار ”مال“ کو اچھی طرح ٹٹول کر دیکھتا اور پوری تسلی کے بعد اس کی قیمت ادا کرتا۔ ہمارے شہر میں یہ کاروبار بہت عروج پر تھا اور شائد اسی لئے بادشاہ نے ہماری فروخت پر ایک ٹیکس بھی عائد کر دیا تھا ۔میں ایک تنومند جوان تھا ،چوڑا چکلہ سینہ ،کسرتی جسم اور نکلتا ہوا قد ۔ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ مجھے میرے مالک سے منہ مانگے داموں خرید لے مگر میرا مالک کبھی اس پر راضی نہ ہوتا ۔پھر یوں ہوا کہ جولیس سیزر نے ہمارے علاقے پر چڑھائی کی اور تمام غلاموں کو قبضے میں لینے کے بعد بیچ دیا۔
ان 53,000غلاموں کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ میرا نیا مالک مجھے پا کر بہت خوش ہوا،مگر وہ ایک نہایت ظالم اور سفاک انسان تھا ۔وہ صبح شام مجھ سے کام کرواتا اور جس روز مجھے کام کے دوران اونگھ بھی آ جاتی اس دن مجھے سو کوڑے مارے جاتے۔لیکن میں نے کبھی چوں بھی نہیں کی کیونکہ میرے باپ نے مجھے مالک کی تابعداری کے علاوہ کچھ سکھایا ہی نہیں تھا۔میں نے مرتے دم تک اپنے مالک کی خدمت کی اور جب میں بالکل بوڑھا ہو گیا تو میرے مالک نے مجھے اونے پونے داموں فروخت کردیا۔وہ سخت سردی کے دن تھے اور میرے بدن پر ایک چیتھڑا بھی نہیں تھا۔میں اس بڑھاپے میں سردی برداشت نہ کر سکا اور اپنے نئے مالک کی چوکھٹ پر جان کی بازی ہار گیا۔
میں سقراط ہوں ،مجھ پر مقدمہ چلایا جا چکا ہے، مجھے موت کا حکم نامہ مل چکا ہے ۔میرے دوست، شاگرد بہت آزردہ ہیں ،ان کے خیال میں مجھے مرنا نہیں چاہئے ،زہر کا پیالہ پینے کی بجائے مجھے جیل سے نکل بھاگنا چاہئے ۔لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر ایک فلاسفرموت سے ڈر کر بھاگ گیا تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ سچا فلسفی ہر گز نہیں تھا۔ویسے بھی ایتھنز سے نکلنے کے بعد اگر میں کہیں دوسری جگہ گیا تو وہاں کے حکمران بھی میرے افکار کو قبول کرنے کی بجائے ایتھنز کی اشرافیہ کی طرح میرے خلاف ہو جائیں گیاور پھر میں کسی صورت بھی وہ معاہدہ عمرانی توڑنے کے حق میں نہیں ہوں جس کے تحت میں نے اس ملک کے قوانین کے تابع رہنا قبول کیا ،جیل سے فرار کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوگا کہ میں اس معاہدہ عمرانی کی خلاف ورزی کروں جو کہ ہر طرح سے ایک غیر اصولی فعل ہوگا۔آخر کار جیل کے داروغہ نے مجھے زہر کا پیالہ تھمادیا جسے میں نے سکون کے ساتھ پیا ۔پھر مجھے چلنے کے لئے کہا گیا حتی کہ میری ٹانگیں بے حس ہو گئیں اور میں گر پڑا۔داروغہ نے میرے پیروں کو ٹٹول کر دیکھا، ان میں کوئی جان نہیں تھی ۔دھیرے دھیرے زہر میرے دل میں سرایت کر گیا ،میں مر چکا تھا۔
میرا نام آئیکو ہے ،میری عمر تین سال ہے ،میں ہیرو شیما میں پیدا ہوا ۔میرے ماں باپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں پورے جاپان میں مجھ سے زیادہ خوبصورت بچہ اور کوئی نہیں ہے۔ جب بھی وہ مجھے بہلانے کے لئے مختلف قسم کی حرکتیں کرتے ،مجھے ہنسی آ جاتی اور میری کلکاریاں دیکھ کر وہ دیوانے ہو جاتے ۔میری بڑی بہن بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے اور گھنٹوں مجھے اپنے ساتھ گڈے گڈیوں کے کھیل کھلاتی ہے ۔مجھے یوں لگتا ہے جیسے میر ے ماں باپ اور بہن کے لئے پوری کائنات میں مجھ سے زیادہ قیمتی چیز اور کوئی نہیں لیکن6اگست 1945کو پیر کی صبح آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر جب میں اپنے گھر میں کھیل رہا تھا ،میری بڑی بہن سو رہی تھی اور میری ماں گھر کا کام کر رہی تھی کہ اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا اورہمارے شہر کے لاکھوں لوگ مر گئے۔ جو زندہ بچے وہ مردوں سے بد تر ٹھہرے ۔اس روز میرے ماں باپ کی کل کائنات اجڑ گئی ،میں بھی مر گیا ۔
میں ایک اسٹرو ناٹ ہوں اور امریکی ادارے ناسا میں کام کرتا ہوں ۔میری نوکری ایک ”ڈریم جاب“ ہے کیونکہ خلابازی میرا جنون تھا اور یہی اب میری نوکری بھی ہے۔میراطرز زندگی شاہانہ ہے جس کا خواب ہر امریکی نوجوان دیکھتا ہے ۔اس ویک اینڈ پر میں ایک نائٹ کلب سے واپس آ رہا تھا ،رات خاصی ہو چکی تھی اور میں نے شراب بھی پی رکھی تھی۔نشے میں موڑ کاٹتے وقت اچانک سامنے ایک ٹرک آ گیا ،میں نے کار کو موڑنے کی کوشش کی مگر دیر ہو چکی تھی ۔ٹرک کی رفتار بہت زیادہ تھی (غالباً اس کے ڈرائیور نے بھی پی رکھی تھی ) ،اس نے بریک لگانے کی بھی زحمت نہیں کی اور میری گاڑی کو روندتا ہوا نکل گیا ۔چند منٹ بعد ایک چنگھاڑتی ہوئی ایمبولنس آئی اور مجھے اٹھا کر ہسپتال لے گئی ،کئی گھنٹے تک میرا آپریشن جاری رہا، مجھے بچانے کی بے حد کوشش کی گئی مگر میں جانبر نہ ہو سکا۔واشنگٹن میں میری بیوی کو اطلاع دے گئی کہ میں مر چکا ہوں۔ میری موت کے سوگ میں اگلے روز ناسا میں ایک منٹ تک خاموشی رہی۔
میں کون ہوں ؟ میں لاکھوں برس سے پیدا ہوتا آ رہا ہوں اور مرتا چلا جا رہا ہوں ۔میں کب تک یونہی پیدا ہوتا رہوں گا اور کب تک مرتا رہوں گا ؟میں وہ ہوں جس نے تاریخ میں لاکھوں لوگوں کا قتل کیا یا میں ان لاکھوں لوگوں میں سے ہوں جو قتل ہوئے ؟ میں ظالموں میں سے ہوں یا مظلوموں میں سے ؟ میں سفاک فوجیوں کا سپہ سالار ہوں یا بے گناہ بچوں میں شامل ہوں ؟میں ایک بے بس لاچار اور مجبور غلام ہوں یا ایک عیاش امریکی ؟میں مذہب اور قومیت کے نام پر لوگوں کی گردنیں مارنے والوں میں سے ہوں یا ان میں سے جنہوں نے اپنے نظرئیے کی خاطر جان گنوائی؟آخر میں کون ہوں ؟
شاید میں ہٹلر بھی ہوں اور مدر ٹریسا بھی ،آئن سٹائن بھی ہوں اور چنگیز خان بھی ،میکاولی بھی ہوں اور مہاتما بدھ بھی،یزید بھی ہوں اور حسین  کا پیروکار بھی،سینٹ آگسٹائن بھی ہوں نطشے بھی …یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا مگر شائد میں کبھی نہیں جان پاؤں گا کہ میں آخر کون ہوں؟
تازہ ترین