• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دفعہ وہ یاد ہے تم کو
بن بتی جب سائیکل کا چالان ہوا تھا
ہم نے کیسے بھوکے پیاسے بیماروں سی ایکٹنگ کی تھی
حوالدار نے الٹا ایک اٹھنی دے کر بھیج دیاتھا
ایک چونی میری تھی
وہ بھجوا دو
اور بھی کچھ سامان تمہارے پاس پڑا ہے
جی ایسی ہی شاہکار نظمیں تخلیق کرنے والے گلزار سمپورن سنگھ کالرہ طبیعت کی خرابی کے باعث واپس وطن چلے گئے۔ آخری دن انہوں نے دینہ گزارا جہاں ان کا جنم ہوا تھا اور جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا۔ گلزار جنہیں خود میں ایک زمانے تک اس لئے جانتا تھا کہ انہوں نے ”موسم“ ”آندھی“ ”اجازت“ اور” ماچس“ جیسی بے مثال فلمیں تخلیق کی تھیں۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ اپنے بچپن کے جس گلزار کو میں فلم میکر کی حیثیت سے جانتا تھا وہ بے مثال شاعر بھی ہے، جو نظمیں ہم نے اپنی جوانی میں گنگنانا شروع کیں وہ بھی اسی گلزار کی ہیں۔ان نظموں کے لئے گلزار نے سلیل چودھری، مدن موہن اور سب سے بڑھ کر آرڈی برمن کا ساتھ نبھایا اور یوں ”دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن“ ”چھڑی رے چھڑی کیسی گلے میں پڑی“ اور ”نام بھول جائے گا چہرہ یہ بدل جائے گا“ جیسے بے مثل گانے ہمیں سننے کو ملے۔ڈائریکٹر کے طور پر گلزار نے بنگالی ڈائریکٹر بمل رائے کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ بمل رائے جن کی فلموں میں ”دو بیگھہ زمین، سجاتا، مدھومتی، پری نیتا، پارکھ“ اور ”دیوداس“ جیسی فلمیں شامل ہیں۔ انہوں نے گلزار کے ڈائریکٹر کے طور پر ٹیلنٹ کو نکھارنے میں بڑا رول ادا کیا۔ گلزار نے کچھ عرصہ ہری کیش مکرجی کو بھی اسسٹ کیا۔ ہری کیش کی بڑی فلموں میں ”مسافر، انورادھا، اناڑی، اصلی نقلی، آنند، گڈی،ا بھی مان، نمک حرام“ اور” ملی“ جیسی فلمیں شامل ہیں۔ ان کے ساتھ نے بھی گلزار کو گلزار بنانے میں بڑا رول ادا کیا۔
گلزار کا آغاز ایک ڈائیلاگ اور سکرین پلے رائٹر کا تھا۔ ان کی پہلی فلمیں جس میں انہوں نے رائٹر کے طور پر کام کیا ”اشیر داد“ اور ”خاموشی“ ہیں۔ انہی تجربات کی بدولت ایک مقام پر آ کر گلزار نے سوچا کہ اب وقت ہے کہ خود فلمیں ڈائریکٹ کی جائیں۔ اپنی پہلی فلم ”میرے اپنے“ سے جب انہوں نے آغاز کیا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ”میرے اپنے“ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ یہ مینا کماری کے آخری دنوں کی فلم ہے۔ اس فلم میں مینا کماری نے آنندی دیوی کا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک ایسی بوڑھی بیوہ کی کہانی ہے کہ جو دو نوجوان بے کار گروہوں کی آپس کی لڑا ئیوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ ایک ایسی ہی لڑائی میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے جس سے انہیں احساس ہوتا ہے کہ اس طرح کی لڑائیاں بے حصول ہیں اور اس طرح کے تشدد بے کار۔ اس فلم نے اگرچہ باکس آفس پر بہت اچھا بزنس نہیں کیا لیکن مقصدی سینما میں اس نے اپنا مقام بنایا ہوا ہے۔ گلزار نے اس کے بعد ”پریچے، کوشش “ اور ”اچانک“ جیسی فلمیں بنائیں۔ ان میں سے تقریباً سبھی فلمیں بنگالی اور ہندی زبان کے ناولوں اورافسانوں پر مبنی تھیں۔ ان کی فلم ”اچانک“ کی کہانی کے اے عباس نے لکھی تھی اور اس پر انہیں بہترین کہانی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد آنے والی چند فلمیں گلزار کی شاندار ترین فلمیں ہیں انہی میں شامل ہے ان کی شہرہ آفاق ”آندھی“۔ یہ فلم کلمیشور کی ہندی کہانی ”کالی آندھی“ پر مبنی ہے اور ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے جسے سیاست نے الگ الگ کر دیا ہے۔ اس فلم نے بہت سے ایوارڈز جیتے اور ہندی سینما میں اب تک اسے ایک بڑی فلم کے طور پر گردانا جاتا ہے۔
”آندھی“ کے بعد گلزار نے پہلے ”خوشبو“ اور پھر ”موسم“ بنائی۔ ”موسم“ اے آر کرونن کے ناول "The Judas Tree" سے متاثر ہے اور ”اجازت“ کے ساتھ ساتھ یہ شاید گلزار کی بہترین فلموں میں شامل ہوتی ہے۔ ”دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن“ اور ”چھڑی رے چھڑی کیسی گلے میں پڑی“ جیسی بے مثال دھنیں”موسم“ میں شامل ہیں۔
گلزار کی اگلی فلم ”نمکین“ تھی جو انہوں نے شیکسپیئر کے ڈرامے "The Comedy of Errors" سے متاثر ہو کر لکھی۔ اس کے بعد آنے والی فلموں میں ”اجازت“ ”ماچس“ اور ”ہوتوتو“ شامل ہیں۔ اس دوران میں گلزار نے وقت نکال کر ٹیلی ویژن کے لئے بے مثال سیریل ”مرزا غالب“ تخلیق کی اور یوں غالب سے ناواقف لوگوں کو یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ ”پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے، کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا“۔
گلزار کا سینما ایک ادب کے بڑے آدمی کا سینما ہے۔ اس نے برصغیر اور خاص طور پر ہندوستان کی فلم انڈسٹری پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ”غنڈہ گردی“ ”کرائم“ اور ”فضولیت“ پر مبنی فلموں کے درمیان ایسے اچھے اور رومنٹک موضوعات اور اچھی شاعری پر مبنی نغمات کو فروغ دیا کہ جنہوں نے عام آدمی کو اچھی زبان، اچھے ادب اور اچھی شاعری سے روشناس کروایا۔فلم اور ٹی وی کا ایک بڑا کام یہ بھی ہونا چاہئے، جب ہم اپنی فلم انڈسٹری اور ٹی وی کے ڈراموں کی جانب دیکھتے ہیں تو ہمیں گلزار جیسا ایک بھی آدمی نظر نہیں آتا۔ ہماری فلم انڈسٹری اسی وجہ سے ایسے برے حال میں ہے کہ اس پر سے ادب کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ اس کی کہانیوں میں ”آندھی“ ”موسم“ اور ”پریچے“ جیسی کہانیاں نہیں ہیں۔ گلزار تو اب اپنے آپ کو صرف نغمے لکھنے تک محدود کر چکے ہیں لیکن اب بھی ہندوستان میں اردو زبان اگرزندہ ہے تو اس کا ایک سبب گلزار جیسے لوگوں کے نغمے ہیں۔
نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے
یہ سُر بلاتے ہیں جب تم اِدھر نہیں آتے
تازہ ترین