76 برس ہو چلے ہیں قرار دادِ لاہور (پاکستان) کو رقم ہوئے۔ اور ہر سال ہم 23 مارچ کو یومِ پاکستان پر فوجی قوت کا شاندار مظاہرہ دیکھ کر خود کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ مملکتِ خداداد کو قائم رکھنے کو اس کے جانثار چاق و چوبند موجود ہیں۔ تجدیدِ عہد کا دن یقینا یاد دلاتا ہے کہ آخر اس قرارداد کا مطمع نظر تھا کیا؟ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ (الف) شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل علاقوں کو آزادی دی جائے اور ان میں شامل اکائیاں آزاد و خودمختار ہوں گی۔ (ب) نیز مسلم اور ہندو اکثریتی علاقوں میں بسنے والی اقلیتوں کے لوگوں کو اکثریتی آبادی کے لوگوں کے مساوی حقوق بلاتفریق حاصل ہوں گے۔ (ج) اور علاقائی تشکیلات کے پاس فقط دفاع، خارجہ امور، رسد و رسائل اور کسٹمز کے اختیارات ہوں گے۔ یقینا ابھی پاکستان کا جغرافیائی اور نظری تصور سامنے آیا تھا اور نہ ہی مستقبل کی ریاست یا ریاستوں کی کوئی صورت گری۔ لاہور قرارداد سے قبل 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو سندھ میں 33 نشستوں میں سے فقط 3 نشستیں ملیں۔ پنجاب میں 84 میں سے دو اور خیبرپختون خوا میں کوئی نشست نہ ملی۔ مسلم لیگ کے اشرافی تن میں جان تو کہیں جا کے 1946ء کے انتخابات میں عوام کی منشا کے زبردست اظہار سے پڑی جب 78 مخصوص مسلم نشستوںمیں سے قائداعظم کی جماعت 73 نشستوں پہ جیت گئی۔ اور مسلم لیگ آزادی سے فقط ایک برس پہلے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن کر اُبھر سکی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں ہندو اور مسلم سپاہ انگریزوں کے خلاف مل کر لڑیں اور وہ بھی آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر کی شکستہ امارت کو پھر سے بحال کرنے، جو اپنی تاریخی عمر کب کی بِتا چکی تھی۔ غدر کیا ناکام ہوا، مسلمانوں کا جاہ و جلال قصۂ پارینہ ہوا، اور وہ نشاۃِ ماضی کی یادوں میں کھو کے رہ گئے۔ رہی سہی جو شان بس اوّدھ اور آس پاس کے علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی، وہ بھی بدلتے زمانے کے حوادث نہ سہہ سکی۔ انگریزی راج و زبان سے چڑ نے اُنھیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ مسلم اقلیتی علاقوں میں زوال پذیر اشرافیہ اور ملازمت پیشہ لوگوں کے ملازمتوں میں پچھڑنے سے احساسِ محرومی بڑھا اور اس ماحول میں سامنے آئے ہمارے محترم سرسیّد احمد خان اور اُن کا علی گڑھ کالج۔ دیوبند مکتب والے اپنی روایت پہ قائم رہے کہ انگریزی اور انگریزوں سے لینا دینا نہیں اور یہ کہ مذہبی عبادات میں عدم مداخلت کے ہوتے ہوئے ہندوستان کو دارالحرب تو قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ ملّتِ اسلامیہ انگریزی راج کے خاتمے کیلئے متحدہ ہندوستان میں سامراج دشمن جدوجہد جاری رکھے گی۔ مسلمانوں کے بطور علیحدہ ’’قوم‘‘ کا نظری تصور ابھرا بھی تو مسلم اقلیتی صوبوں میں اور سرسیّد احمد خاں اور اُن کے ساتھیوں نے مسلم نشاۃِ ثانیہ کو ہندوئوں کے ہم پلہ قرار دینے کیلئے زبردست کام کیا، لیکن وہ اپنی جدت پسندی اور لبرل علوم کے فروغ کیلئے علمائے دین کے فتوئوں کا نشانہ بنے۔ لیکن ’’مسلم قوم‘‘ کا ہندوئوں سے ہم پلہ نظریہ اگر پیش کیا تو ہمارے اشراف کے سرسیّد احمد خان نے، جو مسلم اقلیتی صوبوں کی محرومیوں اور تمنائوں کا اظہار تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح (جن کا تعلق مسلم اقلیتی اثنا عشری شیعہ فرقہ اور ممبئی سے تھا) ایک بہت ہی سیکولر اور لبرل انسان تھے اور انھیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر سمجھا جاتا تھا۔ وہ گاندھی جی کے فرقہ وارانہ اظہار سے بہت نالاں تھے اور سیاست میں مذہبی تشبیہات کے استعمال کے خلاف۔ تاریخی جبر کے ہاتھوں، وہی محمد علی جناح اقلیتی حقوق کے تحفظ کی خاطر ’’دو قومی نظریہ‘‘ کے داعی بنے۔ لیکن جناح صاحب کیلئے مخمصہ یہ تھا کہ اقلیتی مسلم علاقوں کے مسلمان تو متفرق مسلم نظریہ کے پُرجوش حامی تھے، لیکن مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں کو اس میں قطعی دلچسپی نہ تھی اور وہ مذہبی بنیاد پر تقسیم کے خلاف تھے، جیسا کہ پنجاب، سندھ، خیبرپختون خوا اور بنگال۔
15 ؍مارچ 1946ء کو برطانوی وزیراعظم ایٹلی (Attlee) نے کیبنٹ مشن بھارت بھیجا، تاکہ بھارت کو آزادی دی جا سکے۔ کیبنٹ مشن پلان نے ایک نیم وفاقی (Confederal) اسکیم پیش کی جس کے مطابق ہندو اور مسلم اکثریتی علاقوں کے گروپس کو مساوی بنیاد پر اکٹھا رکھنا تھا۔ جون 2016ء میں کانگریس اور مسلم لیگ نے اسی منصوبے سے اتفاق کیا اور مشترکہ حکومت وجود میں آئی۔ لیکن جواہر لال نہرو نے 10 جولائی کو یہ بیان دیا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو مسلم مساوات پر مبنی یہ ا سکیم جاری نہیں رہے گی۔ جس پر قائداعظم نے اس اسکیم سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ جس کے تحت مسلم و ہندو اکثریت علاقوں کے لوگوں کو ایک نیم وفاق میں اکٹھا رہنے کا سمبندھ کیا گیا تھا۔ سچ یہ ہے کہ کانگریس ایک مضبوط مرکز کی حامی تھی اور جناح ایک بہت ڈھیلے ڈھالے وفاق کے حامی۔ اپنے حق کے اظہار کیلئے مسلم لیگ نے ’’ڈائریکٹ ایکشن‘‘ کی کال دی، لیکن نتیجہ بدترین فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں نکلا اور برصغیر میں پُرامن بقائے باہم کی جگہ متشددانہ تقسیم کی راہ ہموار ہو گئی۔ لیکن جناح اور اُن کے پنجاب اور بنگال کے ساتھی قطعی طور پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے خلاف تھے اور آخری وقت تک وہ اور اُن کے اتحادی کوشش کرتے رہے کہ ایسا نہ ہو۔ اگر پنجاب اور بنگال متحد رہتے تو نہ آبادیوں کا وسیع انخلا ہوتا اور نہ فرقہ وارانہ فسادات اور خونی تقسیم۔ لیکن فرقہ وارانہ تقسیم کا تیر ترکش سے نکل چکا تھا، جس نے بعد ازاں دونوں مملکتوں کے درمیان باہمی نفرت کے تعلقات کی بنیاد رکھ دی۔ آخری وقت تک جناح نے لارڈ مائونٹ بیٹن سے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے خلاف پُرزور کوشش کی لیکن یہ اسی اصول کے خلاف تھا جس کی بنیاد پرہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیاگیا تھا۔
پاکستان بننے پر قائداعظم کو معلوم تھا کہ وہ کوئی فرقہ پرست مذہبی ریاست بنانے نہیں جا رہے، اُنھوں نے 11۔ اگست کو آئین ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں اقلیتوں کے مساوی حقوق کی بات کی اور نئی ریاست کو مذہب سے ماورا ہونے کا واشگاف اعلان کیا۔ اسی طرح بھارت میں ایک سیکولر آئین تشکیل دیا گیا۔ لیکن آج تک بھارت میں اور نہ پاکستان میں عملاً اقلیتوں کو حقوق مل سکے اور نہ ہی دونوں ملک حقیقی رضاکارانہ وفاق بن سکے جن میں محروم قومیتوں کو برابر کے حقوق مل سکتے۔ پاکستان میں یہ کام مذہبی انتہا پسندوں نےپاکستان، اسلام اور سرکاری زبان کے نام پر کیالئے، جبکہ بھارت میں یہ ’’بھارت ماتا‘‘ اور اب ہندتوا کے نام پر ہو رہا ہے۔
جو بہت خوفناک پہلو ہے، وہ یہ ہے کہ بھارت میں نہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں۔ قومی آزادی کی قیادتیں اس سوال پر نہ صرف یہ کہ تقسیم ہوئیں بلکہ اس مسئلے کے حل کا کوئی اطمینان بخش حل تلاش نہ کر پائیں۔ آج بھارت میں اگر ہندتوا حاوی ہے تو پاکستان میں انتہاپسند مذہبی دائیں بازو کا غلبہ۔اور یہ وہی مذہبی دایاں بازو ہے جو پاکستان کا مخالف اور قائداعظم کو کافرِ اعظم کے نام سے یاد کرتا تھا۔ پاکستان کے بننے کے بعد محروم صوبوں سے انصاف ہوا اور نہ اقلیتوں سے، جس کے باعث قومی یکجہتی ناپید ہوئی اور بالآخر پاکستان دو لخت ہوا۔ ابھی بھی بلوچستان قابلِ گردن زدنی ہے اور قومی اختلاف کی ہر صورت کو ملک دشمنی تصور کیا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ سول اور ملٹری حکمران اشرافیہ نے پاکستان بھر کے عوام کو کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ اُنھیں شریکِ اقتدار کیا جائے۔ کبھی سویلین اور کبھی فوجی حکمرانی چلتی رہی، لیکن عوام کو کبھی سکھ کا سانس نہ ملا۔ آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ اور کب قومی اکائیاں اور محروم طبقے پاکستان میں اپنی اُمیدوں کی جلا پا سکیں گے۔ پاکستان جمہوری بنیاد پر وجود میں آیا اور اسی طور توانا ہو سکتا ہے جب سب قومی اکائیاں اس کے وفاق میں برابر کی شریک رہیں اور محروم و مظلوم طبقات کو مساوی حقوق اور شراکت نصیب ہو سکے۔ ایک جمہوری اور ترقی پسند پاکستان ہی بقائے دائم پا سکتا ہے۔ قائداعظم کا پاکستان نہ صرف یہ کہ جمہوری ہے بلکہ ہر طرح کے تعصب سے پاک بھی۔!! اور ایسا ہو کر ہی رہے گا، چاہے فرقہ پرست کچھ بھی کہیں!