• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں فقط وہی طاقتیں حقیقی جمہوریت پسند ہیں جو آئین پاکستان کے مکمل اطلاق پر یقین رکھتی ہیں جنہیں اس کی کچھ جزئیات سے اختلاف ہے وہ انہیں آئین کے مطابق دو تہائی اکثریت سے تبدیل کرنے کی تجویز اور مطالبہ تو کرسکتی ہیں لیکن اس کا مذاق اڑانا اور اسے ناقابل عمل قرار دینا ایک واضح غیر جمہوری رویہ ہے۔ یہ عجب ہے کہ رات دن جمہوریت کا گیت الاپنے والی وہ جماعتیں جو انتخابات میں پارلیمانی گروپ بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں ان میں سے بعض جماعتوں کے رہنما اور حامی تجزیہ نگار آئین کی بعض جزئیات کو ہی ناقابل اطلاق قرار دیتے ہیں جن کی عملداری سے ہی ایک عوا م دوست اور معیاری پارلیمنٹ وجود میں آسکتی ہے۔آئین کی ایسی آرٹیکلز کو ناقابل اطلاق قرار دینا آمروں کے آئین کی جانب سے آئین سے انحراف کے مترادف ہے۔ فرق فقط اتنا ہے کہ نیم فوجی یا نیم جمہوری آمر اپنی وردی اور بندوق کی بنیاد پر آئین میں مرضی کی ترامیم کرتے رہے جبکہ سیاسی جماعتیں”عوامی عدالت “ کے زور پر یہ جرأت کرتی ہیں کہ وہ اس کے اس حصے کو تنقید کا نشانہ بنانے لگتی ہیں جس سے ان کے احتساب خصوصاً ان کے انتخابی امیدوار پر مطلوب آئینی چیک ہوتا ہو یا انتخاب جیتنے کے بعد بھی پکڑ کی کوئی راہ نکلتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی جماعتیں انتخاب جیتنے کے بعد پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات تو بڑے زور وشور سے کرتی ہیں لیکن انتخاب سے قبل اور بعد میں بھی آئین کی مکمل عملدرای کی ناگریز قومی ضرورت سے ممکنہ حد تک اجتناب کرتی ہیں۔ یوں بمطاق آئین امیدواروں کے مطلوبہ معیار کو پرکھنے والے ادارے الیکشن کمیشن کے معیار اور مطلوبہ کردار کو ہمارے انتخابی عمل میں ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ اس مرتبہ میڈیا اور عدلیہ کی سرگرمی اور سول سوسائٹی کی جزوی بیداری سے الیکشن کمیشن کے آئین کے مطابق معیار پر قوم کے بیدار حصے کی نظریں گڑی ہوئی ہیں۔ خود چیف الیکشن کمشنر کی اطمینان بخش غیر جانبداری اور اہلیت سے بھی سٹیٹس کو مخصوص اداکاروں کودھڑکا لگ رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ آئین کے مطابق انتخاب سے کہیں کسی طرف سے کوئی پکڑ نہ ہوجائے۔ سو انہوں نے انتخابات کے التواء کا پروپیگنڈہ کرکے ایسی فضا پیدا کرنے کی سازش کی کہ یا تو انتخابات طویل مدت کے لئے التواء میں پڑجائیں یا پھر پہلے کی طرح جیسے تیسے ہوجائیں۔ آئین کی امیدواروں کے چیک سے متعلق آرٹیکلز عملاً معطل ہی رہیں اورپھر ان کا داؤ لگ جائے اور یہ پارلیمنٹ میں برا جمان ہوجائیں اگر اختتام پذیر پارلیمنٹ کو جاری کرپٹ جمہوری دور میں اہمیت نہ مل سکی اور اس کی بالا دستی قائم نہ ہوسکی ، اس کے مقابلے میں عدلیہ اور میڈیا زیادہ اہم ہوتے گئے تو اس کی وجہ ہی یہ تھی کہ یہ ایک این آر او زدہ پارلیمنٹ تھی جس میں جعل سازوں ،ٹیکس چوروں، قرض خوروں او ر نااہلوں کی اکثریت تھی۔ معاشرے میں چپکے سے برپا ہوتی بیداری، عدلیہ کے قابل تحسین کردار اور حقیقی جمہوریت کے لئے میڈیا کی باکمال پوزیشن کا اتنا حاصل تو ہوا کہ جاگیردارانہ جمہوریت کے غلبے میں بھی راہ نکل آئی کہ الیکشن کمشنر اور کمشنر کی اہمیت کو قوم بالآخر سمجھ گئی اور یہ کام کینیڈین شیخ الاسلام کی پاکستان ڈرامائی آمد اور ہماری قومی سیاست کے تاریخی شعبدے سے بہت پہلے ہوگیا تھا۔ بہت سے بیدار مغز اور حقیقی جمہوری جذبے سے سرشار شخصیات اور گروپس کسی بھی ڈھیلے ڈھالے حسب روایت عوام دشمن نام نہاد الیکشن پراسس کو عدلیہ میں چیلنج کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے اور بیٹھے ہیں تو بددیسی شیخ الاسلام نے اچانک وارد ہو کر اہم ترین آئینی ادارے، الیکشن کمیشن پر ہی حملہ کردیا لیکن حکمران جماعت نے اسے جس طرح پروٹوکول دیا اور کنٹینر میں سجے شیخ کی ناز برداریاں کیں اس سے آئین نے ممکنہ حدتک انعقاد کو ٹال کر تبدیلی کا راستہ روکنے کی سازش بے نقاب ہوگئی۔ رہی سہی کسر سپریم کورٹ کے فیصلے سے نکل گئی جس میں حضرت صاحب کی نیت کو بنیاد بنایا گیا جو بقول سپریم کورٹ یہ نیک ثابت نہ ہوسکی لہٰذا اب انتخابات کا انعقاد بمطابق آئین کے لئے جو پیش رفت ایک تبدیلی کے عمل میں فطرتاً ہورہی تھی وہ ہی آگے بڑھے گی۔
اس کے دو واضح اشارے گزشتہ روز ملے۔ ایک یہ کہ الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کے 249منتخب اراکین کو انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ پندرہ دن میں اپنی اسناد کی ایچ ای سی سے تصدیق کرائیں بصورت دیگر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ بات بڑی سیدھی اور واضح ہے کہ جب ایک عام پاکستانی جعلی اسناد، پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور کوئی بوگس کاری دستاویز بنوانے اور اس کے استعمال پر قانون کی زد میں آکر تھانہ کچہری بھگتتا ہے اور قید وبند کی سزا بھی، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جعلی ڈگریاں تیار کرانے والے ثابت شدہ جعلساز عوام کی نمائندگی کے اہل ہوجائیں۔
الیکشن کمیشن کا یہ اقدام آئین کی آرٹیکل 62 اور 63 کے اطلاق کی طرف عملاً اور قابل تحسین پیش رفت ہے۔ ایک خبر کے مطابق ”اربوں کے قرضوں کی عدم ادائیگی اور سیاسی اثر و رسوخ سے بھاری قرضے معاف کرانے کی تفتیش سے متعلق عدالتی کمیشن نے نادہندہ سیاستدانوں کا ریکارڈ صندوقوں میں سپریم کورٹ کے حوالے کردیا“۔خبر کے مطابق سپریم کورٹ یہ ریکارڈ الیکشن کمیشن کو بھیج سکتا ہے جس کے نتیجے میں قرض خور سیاستدان الیکشن کے نااہل قرار پاسکتے ہیں اگر ایسا ہوگیا تو یہ آرٹیکلز62-63کے عملاً اطلاق کی طرف بڑی شکل ہوگی اس کا انتہائی خوش گوار نتیجہ پارلیمنٹ کا معیار بلند ہونے اور اس کی بالا دستی میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ یہ دونوں اقدامات، الیکشن بمطابق آئین کی ناگزیر قومی ضرورت کو پورا کرنے میں بے حد معاون ہوں گے۔ ان کے اطلاق سے جاگیردارانہ جمہوریت کے علمبرداران ان سیاستدانوں اور ان کے حواریوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی جو آئین کی آرٹیکلز 62-63کو ناقابل اطلاق قرار دے رہیں اور اس کی بھد بھی اڑاتے ہیں۔ خوش کن امر یہ ہے کہ ملک کی بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) کے رہنما میاں شہباز شریف نے لاہور بک فیئر کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”آئین کی آرٹیکلز62-63پر عمل ہونا چاہئے، سیاسی قرضے معاف کرانے والوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں“۔ عمران خان تو عرصے سے ٹیکس چوروں اور قرضہ خوروں کا انتخاب کا راستہ روکنے کے لئے دہائی دے رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جعلی ڈگریوں کے حامل اراکین اسمبلی، ٹیکس چوروں اور قرض خوروں کو انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن جعلسازوں،ٹیکس چوروں اور قرض خوروں کو انتخابی عمل سے بطور امیدوار باہر رکھنے کے لئے پیپلز پارٹی کیا موقف اختیارکرتی ہے اور اگر وہ خاموش بھی رہتی ہے تو الیکشن کے مطابق آئین کے حوالے سے اس کے کھوٹے ہونے کی تصدیق ہوگی اگر آنے والے انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن جعلسازوں سازوں ،ٹیکس چوروں اور قرض خوروں اور پارلیمنٹ کے درمیان حائل ہوجائے گا تو اس سے یقینا پارلیمنٹ کا معیار بھی بلند ہوگا اس کی بالا دستی بھی ہوگی، سب سے بڑھ کر سیاسی گند کو صاف کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ آئینی ماہرین ،میڈیا اور حقیقی جمہوریت پرستوں کا متحرک اور سرگرم ہونا بھی ملکی جمہوریت کے استحکام کا باعث بنے گا کہ وہ انتخابات کو آئین کے مطابق منعقد کرانے میں اپنا کردار ادا کریں، یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ وماعلینا الابلاغ
تازہ ترین