• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ڈیجیٹائزڈ دنیا ہے، جس نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔ اسمارٹ فون نے ہمیں کتاب سے لے کر اخبار تک سے دور کردیا ہے۔ کسی آرام دہ کرسی یا اپنے بستر پر لیٹ کر کوئی کتاب یا اخبار پڑھنے کا لطف شاید ہمارے بعد آنے والی نسلیں نہ جانیں۔ سب کچھ آپ کی انگلیوں میں سمٹ کر آگیا ہے۔ چار دوستوں کے ساتھ فرشی نشست میں لوڈو کھیلنے کا مزہ بھی آن لائن لوڈو نے غارت کردیا ہے۔

آن لائن گیمز بنانے والوں نے ایسے ایسے گیمز تخلیق کردیئے ہیں کہ بچے اور نوجوان نسل ان کی شیدائی ہی نہیں بلکہ ان کے نشے کا شکار ہوچکی ہے۔ ان ہی میں ایک کھیل’’ پب جی ‘بھی ہے۔ یہ اس وقت دنیا کی سب سے مقبول موبائل فون گیم بن چکی ہے، جسے ماہانہ دس کروڑ افراد اپنے موبائل پر کھیلتے ہیں۔ پب جی نے گزشتہ ماہ ایک سو سینتالیس (147) ملین ڈالر کا بزنس کر کے ریکارڈ قائم کیا ہے۔

دنیا بھر میں لاکھوں افراداسے کھیلنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس گیم کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گیم کو آپ یوٹیوب اور فیس بک پر لائیو نشر بھی کرسکتے ہیں۔ اس لیے جب لاکھوں افراد اس گیم کو کھیل رہے ہوتے ہیں تو اتنے ہی تماشائی اسے سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔

پب جی ایک بیٹل رویال آن لائن ملٹی پلیٔر گیم ہے، یعنی ایک ایسی گیم، جس میں کھلاڑی بناکسی ہتھیار کے اترتے ہیں اور گیم کے اندر ہتھیار شیلڈ گاڑیاں اور دیگر چیزیں حاصل کرکے اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔ آخری بچ جانے والا کھلاڑی فاتح قرار پاتا ہے۔ 

پب جی کو ٹکر دینے کے لئے گیمنگ کمپنی ایپک نے اپنی گیم فورٹ نائٹ کا بیٹل رویال ریلیز کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ گیم آن لائن فری تھی۔ راتوں رات یہ پسندیدہ گیم بن گئی۔ اس صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے پب جی کو کچھ تو کرنا ہی تھا۔ اس نے ایک نئی چال چلی اور موبائیل ورلڈ کو ٹارگٹ کیا۔پب جی دسمبر 2017میں آئیر لینڈ کے گیم ڈیزائنر یرینڈہ گرین نے یہ گیم متعارف کرائی۔ 

کمائی کے معاملے میں یہ گیم پہلے نمبر پر رہی ۔ اس گیم میں دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور ایک کھلاڑی سے لے کر سو کھلاڑیوں تک کی ٹیم ہوتی ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑتی ہے۔ دونوں ٹیموں کے کھلاڑی جہاز سے زمین پر اتر کر پہلے اسلحہ تلاش کرتے ہیں اور پھر سامنے والے کھلاڑی پر فائرنگ کرکے مارتے ہیں۔

بچے اور جوان رات دن اس گیم میں مصروف ہیں۔ یہ گیم صحت انسانی کے لئے انتہائی مضر ہے۔ گیم بنانے والی کمپنی فن لینڈ کی فرم سپرسیل جانب سے بتایاگیا ہے کہ اس گیم میں موجود اینی میشن کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں ان لوگوں کو مرگی کے عارضہ کا شکار بناتی ہے، جو یہ گیم کثرت سے کھیلتے ہیں۔ 

نیز ہر طرح کے ویڈیو گیم کھیلنے والوں کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوتا ہے۔ نیز گیم میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے ہڈیوں اور عضلات کا مرض لاحق ہوجاتا ہے ویڈیو گیمز سے آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں، کیونکہ اس میں آنکھوں کی حرکت تیز ہوجاتی ہے اور موبائیل اسکرین سے مقناطیسی لہروں کا نکلنا بھی آنکھوں کے لئے مضر ثابت ہوتا ہے۔

جسمانی ورزش اور کھیل کود ہر عمر اور ہر دور میں یکساں اہمیت کا حامل ہےلیکن آج بچوں کے پاس سمارٹ فون ہے، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کی سہولت ہے، وہ گھنٹوں ان مشینی عجوبوں کے ساتھ مصروف رہتے ہیں ۔ سائنس کی ترقی نے ان سے جسمانی کھیل کود بھی چھین لئےہیں۔آج بچے اسکول سے آتے ہی ٹی وی کا ریموٹ یا اپنا ٹیبلٹ اٹھالیتے ہیں۔

بچوں میں کھلی فضا میں کھیلنے کودنے اور اچھی نیند لینے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے، تاکہ ان کے ننھے دماغوں کو زیادہ سے زیادہ سکون مل سکے۔والدین کی غلط انداز کی محبت بچوں کے بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ ان ننھے منے پھولوں کی پرورش اس طرح ہونی چاہیےکہ جب یہ کھلیں تو ان کے کردار کی خوشبو سے سارا جہاںمہک اُٹھے۔اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے۔

تو پیارے بچو ! کھیل آپ کے لیے بہت ضروری ہیں ، مگر ایسے جس سے آپ کی جسمانی ورزش ہو اور ذہنی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آسکیں۔ٹیکنالوجی کے اس دور میں سائنسی ایجادات سے استفاہ کرنا آپ کا حق ہےلیکن اس میں میانہ روی رکھیں اور مثبت کاموں کے لیے استعمال کریں۔میری دعا ہے کہ آپ ہمیشہ خوش رہیںاور آپ کا مستقبل تابناک ہو۔ اللہ ہر مصیبت سے بچائے اور سیدھے راستے پر چلنے میں آپ کی مدد کرے۔ آمین۔

تم پہ زمانہ فخر کرے

ایسے نرالے کام کرو

تازہ ترین