• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر۔۔روبینہ خان ۔۔۔مانچسٹر
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مینٹل ہیلتھ کوئی ایسا بڑا ایشو نہیں ہے. عام انسان روزمرہ زندگی میں کام کرتا دکھائی دیتا ہے،اور اپنے فرائض بھی ادا کر رہا ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کو ذہنی صحت کے مسائل ہوتے ہیں ،انکی زندگی کا ایک گوشہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو انہیں یا تو خود پتا ہوتا ہےیا قریبی لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روٹین بدلی ہوئی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انگلینڈ میں چھ میں سے ایک شخص مینٹل ہیلتھ کا شکار ہے؟ اکتوبر کی دس تاریخ کو مینٹل ہیلتھ سے متعلق آگہی کا دن منایا جاتا ہے .مینٹل ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ذہنی صحت کے بغیر جسمانی صحت ممکن نہیں ہے. عام معنوں میں ذہنی صحت کی تعریف کیا ہے ؟ اگر آپ کے جذبات، سوچیں ، مشکلات حل کرنے کی قابلیت ،لوگوں سے ملنا جلنا اور اپنے ارد گرد کے حالات کو بہتر طریقے سے جان کرنے کی صلاحیت ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی ذہنی صحت درست ہے . ایک بات جان لینا بہت ضروری ہے کہ مینٹل ہیلتھ اورmental illness میں فرق ہے، اور ہمارے روزمرہ زندگی کے بارے میں رویے درست ہیں تو ذہنی صحت بھی درست ہے لیکن ہم عام طور پر اسی وقت ذہنی صحت کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں جب دماغی بیماریوں کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے. اور واقعی ذہنی خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں ۔تشویش، پریشانی، اصطراب، انزائٹیٹی یا ڈپریشن ...موجودہ زندگی میں بہت بڑھ گئی ہیں.جاب ،بے وفائی ، گھریلو لڑائیاں،جسمانی بیماریاں یا بینیفٹس کانہ ملنا، چھوٹی سے چھوٹی یا بڑی سے بڑی وجہ سے ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔ ایک بالکل سچی بات ہے اور یہ محض کالم کے موضوع کو سپورٹ کرنے کے لئے نہیں لکھ رہی ہوں مجھے ایک فون کال آئی جس میں تعارف میں کہا گیا کہ آپ مجھے نہیں جانتیں، لیکن میں آپ کو ایک عرصے سے جانتی ہوں اور مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات جو میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں وہ نہ تو کسی رشتہ دار کوبتا سکتی ہوں نہ کسی دوست کو بتا سکتی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ وہ میرا مذاق اڑائیں گے، طعنےدیں گے اور مجھے مزید مشکل میں ڈال دیں گے، تو خاتون نے بتایا مجھے برے حالات کی وجہ سے شراب کی بری عادت لگ گئی ہے، اس عادت کو تقریباً دو سال ہوگئے ہیں، اب وہ اس بیماری سے جان چھڑانا چاہتی ہے لیکن خود کو بے بس محسوس کرتی ہے، اندازہ لگائیے کہ ہم جو معاشرے میں دوستی کے دعویدار ہیں جب ایک شخص کو آپ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم اس کے دکھ کو کم کرنے کی بجائے اس میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں تو بے بسی کی انتہا ہو جاتی ہے، یہ کیسا خوف ہے کہ لوگ مدد لینے سے بھی ڈرتے ہیں معاشرے کے سبھی لوگ فرشتے تو نہیں ہوتے نہ غلطیوں اور خامیوں سے پاک ہوتے ہیں، پارسائی کے دعوے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ لوگ اپنے آپ کو مزید چھوٹا سمجھنے لگتے ہیں، لیڈی ڈیانا جیسی شہزادی جذام جیسے مرض کے بچوں کو گود میں اٹھا سکتی تھی،جرمن ڈاکٹر روتھ نے پاکستان میں رہ کر اپنی پوری زندگی جذام کے مریضوں کے لئے وقف کردی تھی،ہم اتنے بڑے کاموں کے لئے خود کو تیار نہیں کر پاتے لیکن محبت اور عزت کے دو لفظ بھی نہیں کہہ سکتے،اس کی وجہ ڈھونڈیں تو ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کے دور رس اور گہرے اثرات سے آگاہ ہی نہیں ہوتے۔الفاظ اور لہجے بہت ہی امپورٹنٹ ہوتے ہیں، اور اکثر لوگ تعریف بھی کرتے ہوئے دوسروں کی کمزوریوں کی نشاندہی کروا رہے ہوتے ہیں مثلا یہ جملہ کے" آج تم بڑی سلم دکھائی دے رہی ہو " کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عموماً تو تم موٹی دکھائی دیتی ہو لیکن آج بہتر لگ رہی ہو!
خود کو بھی ایسے جملوں سے دور رکھنا چاہئے مثلا یہ ڈریس تو سمارٹ لوگوں کے لوگوں کے پہنےکے لئے ہے، یا یہ رنگ میری کمپلیکشن کے لئے ٹھیک نہیں، مجھے پسند تو بہت ہے لیکن میں پہن نہیں سکتا، بظاہر تو یہ بےضررسےجملے ہیں، لیکن ان جملوں کا منفی اثر ہوتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ زمانہ ایسی باتوں کا نوٹس لیتا رہتا ہے آپ کو یاد ہوگاکہ جنید جمشید جو کہ اعلیٰ پائے کے گلوکار تھے، بعد میں گلوکاری چھوڑ کر مذہبی رہنما اور تبلیغ کے راستے پر چل پڑے تھے، ان کا ایک گیت بہت مشہور ہوا تھا کہ، گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نہ پرانا، اس گیت پر تنقید ہوئی اورانہوں نے ہی ایک اور گیت گایا، 'سانولی سلونی سی محبوبہ"
آج بھی لوگ ایسی کریموں کے اشتہارات میں کام کرنے سے انکار کرتے ہیں جس سے لوگ احساس محرومی کا شکار ہو سکتے ہیں.
ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی ذات میں گم ہوجاتے ہیں لوگوں سے ملنا پسند نہیں کرتے .مستزاد یہ کہ ہر کسی کے پاس موبائل میں ایسی ایپس موجود ہیں کہ ان کو استعمال کئے بغیر آپ کو اپنی تصویر بھی اچھی نہیں لگتی جو ہے اس کو قبول کرنا ہم نے بند کر دیا ہے عورت یا مرد پورے دن میں جس طرح رویہ روا رکھتے ہیں. رات کو تنہائی میں خود کا جائزہ لیں تو دہری باتیں اور دہرے معیار سے ذہن خوفناک حد تک متاثر ہوتا ہے، جو لوگ جسمانی کمال یا خوبصورتی میں پرفیکشن کی بات کرتے ہیں، ایسی باتوں کے لئے دو کانوں کا استعمال بہترین ہیں کہ ایک کان سے سنیئے اور دوسرے سے اڑا دیجئے.جہاں فکر اور سنجیدگی زندگی کا حصہ ہونی چاہئے وہاں بے فکری کا مزا اٹھانا ضروری ہے کیونکہ ،"کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا". لیکن دھیان رہے کہ لوگوں کی باتیں سنتے سنتے اپنا ہی کام تمام نہ ہوجائے۔
ایک وقت تھا جب سائیکالوجی(جو کے رویوں کو سمجھنے کا علم ہے) پڑھنے والوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پاگل ہو جاتے ہیں خود سے باتیں کرتے ہیں اور بے جان چیزوں سے بھی گفتگو کرتے ہیں، علم کی کمی کی وجہ سے ہم ایسی باتیں کرتے ہیں، مجھے کالج کی ایک ٹیچر یاد آتی ہیں جو سائیکالوجی پڑھاتی تھیں اور کالج کے گارڈن سے گزرتے ہوئے وہ پودوں کے پاس کھڑے ہوکر ان سے باتیں کرتی تھیں ایک دن ہم نے ان سے پوچھ لیا کہ وہ پودوں سے کیسے بات کر سکتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ پودے بھی جاندار ہیں اور تو جہ پا کر خوش ہوتے ہیں اور تیزی سے نشوونما پاتے ہیں، اگر پھول اور پودوں کو آپ کی توجہ چاہئے تو اندازہ کریں کہ انسانوں کو کس قدر توجہ درکار ہوگی۔جبکہ معاشرے میں دوستی کی اہمیت اور بات چیت کا رواج کم ہو گیا ہے، طنز کے تیر زیادہ چلائے جاتے ہیں ، بے رخی عام ہوچکی ہے،انسان سوشل اینیمل ہے، ایک دوسرے کا خیال رکھئے۔
تازہ ترین