• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
کبھی آسمان کیطرف دیکھ کر سوچا کرتے تھے کہ کاش ہم بھی پرندوں کی طرح اڑان بھریں اور یہاں سے وہاں اڑتے پھریں۔ سمندر کو دیکھ کر اسکی تاحد نظر کی قید سے آزاد وسعت کو دیکھ کر جی چاہتا کہ ہم بھی موج درموج لہروں کیطرح جھومتے پھریں۔ پہاڑوں کی اونچائی اور اسکے لامتناعی سلسلے کو دیکھ کر جی چاہتا کہ کاش! ہم بھی اتنے ہی مضبوط ہوجائیں کہ دنیا ہم سے ٹکرا کر پاش پاش نہ ہو مگر اس میں دراڑیں ضرور پڑجائیں۔ آسمان کیطرف دیکھ کر صرف اڑنے کی خواہش نہیں ہوتی بلکہ چاند ستاروں کو زمین پر لانے کی خواہش بھی ہوتی ہے بلکہ آسمان کیطرف دیکھ کر دھوپ پکڑنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ سورج کی تپش سے دل بہلانے کو جی چاہتاہے۔ بادلوں کی دھواں دھواں سی ٹھنڈی فضا میں خود کو ہاتھ پائوں مارتے دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ صحرائی وادیوں اور چوٹیوں کو سر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ریت اور بارش کو تھامے رکھنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ غرض اپنی طرف سے تیس مار خاں بننے والا انسان خیال و خواب میں جانے کیا کیا تسخیر کرلیتا ہے۔ جانے کون کونسے قلعے فتح کرلیتا ہے تصور کی آنکھ سے ایک کاہل سست، تن آسان بھی ایک نئی فضا تخلیق کرنے چل نکلتا ہے اور اپنی کمند آسمان پر ڈالنے کا ماحول تشکیل دیتاہے۔ پھر انسان تو کچھ نہ کرسکا تنہا سوائے خواب و خیال کی دنیا بسانے کے مگر پھر ماسٹر مائنڈ شخصیات نے مختلف کام کئے سائنسدانوں نے صحت عامہ پر ریسرچ کی اور بہت سی دوائیں ایجاد ہوئیں۔ نئی ایجادات ہوئیں دنیا مستفید ہوتی گئی اور آجکل بھی وقت کے ساتھ ساتھ نت نئی ایجادات ہوتی رہتی ہیں۔ کیا زمانہ تھا کہ لوگوں کے درمیان محبت بڑھی۔ راہ و رسم نبھانے کا وقت آیا تو اس سلسلے میں مدد کبوتروں سے لی گئی یا کبوتروں نے مدد کی۔ کئی مرتبہ فلموں میں وہ سین دیکھا جب خوبصورت کبوتر کے پائوں میں بندھی ڈوری اور اسکے ساتھ بندھا رقعہ یا چھٹی اڑتے ہوئے کبوتر نہایت خوبصورت لگتے اور اسی چوبارے پر جاکے بیٹھتے جہاں کا رقعہ ہوتا، جانے کبوتر اس دور کے کمپیوٹر تھے یا بہت بڑا مواصلات کا ذریعہ کہ سبھی کچھ اندر کی خبر رکھنے میں ماہر ثابت ہوتے۔ پھر جب انسان کی ضروریات اور ذاتی خواہشات ابھرنا شروع ہوئیں تو گدھا گاڑی، گھوڑا، اونٹ اور ہاتھی انسانون کے مواصلاتی سلسلے کا ذریعہ بنے۔ بڑے بادشاہوں اور ملکی معاملات کے پیغام گھڑ سواروں کے ذریعے پہنچنے لگے۔ پھر ہوتے ہوتے گاڑیاں ریل گاڑیاں ایجاد ہوئیں۔ ڈاک بابو یعنی ڈاکئے سائیکلوں پر گھر گھر خط پہنچانا شروع ہوئے۔ پچاس ساٹھ سال پہلے جو آدمی اشرافیہ کے بعد مقبول ہوا وہ ڈاک بابو ہی تھا جس نے آدھی سے زیادہ لوگوں کی ملاقات کراکے انہیں سکون و اطمنان بخشا۔ ویسے ہر قسم کے مواصلات کے سلسلے انسانوں کیلئے راحت و مسرت، اطمنان قلوب، سکون دماغ کا باعث بنے ہیں۔ کہ پھر انسان نے اونچی اڑانوں کے سلسلے کے خواب دیکھنا کم کردیئے تھے۔ آسمانوں پر اڑانا، سورج، چاند سے کھیلنا، سمندر کی موج بن کر جینے والے اب زمینی دنیا کی نت نئی ایجادات سے دل بہلانے لگے، یعنی خیالی پلائو کم پکنے لگی۔تو بات ہورہی تھی کہ پوسٹ مین یعنی ڈاک بابو پانچ، چھ دہائی پہلے خاصے مقبول ہوئے، گھر کی کئی بڑی بوڑھیاں اور جوان خواتین کا رازداں! کہ جس سے تنہائی اور چھپا کے خط پڑھوا کے جواب بھی لکھائے جاتے۔ ویسے ہماری ذاتی رائے ہے ڈاک بابو ایسے بھلے لوگ ہیں کہ شروع دن سے آج تک ان کا طبقہ شریف النفس ہی دیکھا، کئی شریف خاندان والے اپنی بیٹھک میں بٹھاکر انہیں چائے بھی پلا دیتے ہیں، کئی افراد کے خط کے جواب سے علاوہ ان کے عدالتی اشٹام پیپرز اور فارم وغیرہ بھی یہ پر کردیتے تھے، بلکہ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ جب شناختی کارڈ بننے کا عمل شروع ہوا تو کئی ڈاکیے ایسے تھے جو بچپن سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے لے کر درمیانی عمر اور درمیانی عمر سے لے کر بڑھاپے تک سب ہی کو ان کی عمر کا حساب لگاکر بتادیتے کہ کتنی عمر ہے، بلکہ جب شناخت کے فارم بھرنے کا وقت آیا تو کئی ڈاک بابوئوں نے اپنے ہی اندازے اور تجربے سے سب ہی کی عمریں فارم میں بھر دیں کیونکہ پاکستان بننے کے بعد بہت سے لوگوں کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ یا کوئی پرچہ نہ تھا، جس سے معلوم ہوتا کہ کب پیدا ہوئے، مگر ملک کی تقریباً پوری آبادی بغیر کسی تصدیق شدہ پیپر کے صرف اندازوں کی بنا پر اپنی ڈیٹ آف برتھ لکھتے گئے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ مدد ڈاک بابوئوں نے کی کہ اپنے آئیڈیئے سے سب ہی کی عمروں کے فارم بھر دیئے۔ ڈاک بابو آج بھی ہر ملک میں مقبول ہیں اور نہایت محنتی اور خوش اخلاق دیکھے گئے ہیں۔ دنیا بھر میں پچھلے ہفتے ڈاک کا عالمی دن منایا گیا، مگر کاش ڈاکیے جیسے مزدور طبقے کا دن بھی جوش خروش سے منایا جائے تو ان کے لئے حوصلہ افزا بات ہے۔آج کل تو سلسلہ مواصلات نے آفت مچا رکھی ہے۔ تیز رفتاری اس سلسلے میں جتنی آئی ہے وہ کسی اور ایجادات میں نہیں۔ اف! اس مواصلاتی برقی نظام نے جس قدر دنیا کو قریب کردیا وہ کوئی اور نظام نہ کرسکا۔ اب تو اسمارٹ چھوٹے سے ٹیلی فون میں لوگ اپنا جہان بسا ہوا دیکھتے ہیں، بچپن سے لے کر جوانی کے بچھڑے دوست ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں بھی مل جاتے ہیں۔ فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع نے ناصرف لوگوں کو قریب کردیا بلکہ دنیا جہان کی معلومات سے آگاہ کردیا۔ اب تو سب ہی پڑھے لکھے نظر آتے ہیں کمال کا علم پہنچا رہے ہیں یہ برقی مواصلات، ویسے بھی لوگوں کے ہاتھ حرکت میں رہتے ہیں، یعنی ایکسرسائز ہورہی ہے ہاتھوں کی وہ لوگ جو ہاتھ اٹھاکر کوئی چیز ادھر ادھر نہ کریں اب وہ ہر وقت موبائل یا کمپیوٹر سے کھیلتے رہتے ہیں۔ ہر وقت پوسٹ پڑھنا پھر جمع ہونے پر اسے ڈیلیٹ کرتے رہنا یہ ہاتھ ہلانا نہیں تو کیا ہے، اب یہ طعنہ بھی نہ رہا کہ ہاتھ ہلاکر کوئی کام کرلیں۔ کچھ لوگ تو اس سلسلے میں اتنے حساس ہیں کہ گلے شکوے کرنے لگے کہ ہماری پوسٹ پر کتنے لائیکس اور کامنٹس آئے ہیں، سوشل میڈیا نے جہاں ہر ذہن کو متحرک کردیا وہاں جاہلت کا ریٹ بھی زیرو کردیا۔
تازہ ترین