• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدترین جمہوریت کے عوام سے انتقام لینے کے صرف 25 دن باقی رہ گئے ہیں۔ یہ امید بجا ہے کہ شاید اس مرتبہ ”بدترین جمہوریت“ عوام کے حصے میں نہ آئے بلکہ وہ اصلی اور حقیقی جمہوریت کا چہرہ بھی دیکھ سکیں لیکن کنفیوژن اب بھی برقرار ہے کیونکہ اس وقت دو طرح کی تھیوریاں کام کر رہی ہیں۔ ایک کے خدوخال یہ ہیں کہ الیکشن آزادانہ منصفانہ شفاف اور بروقت ہوں گے جبکہ دوسری تھیوری کے مطابق الیکشن تو کسی وقت بھی ملتوی ہو سکتے ہیں اور نگران حکومت کے قیام کے بعد تو اس کے ملتوی ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اگر بفرض محال یہ ہو بھی گئے تو یہ مشکوک ہوں گے، ان کی شفافیت کے حالات نظر نہیں آتے اس لئے پہلے ایسے حالات اور ماحول بنایا جائے کہ یہ شک و شبہ سے بالاتر ہوں۔
ان دو تھیوریوں کے پیچھے کچھ سازشیں بھی ہو رہی ہیں یا ایسی صورتحال کی آڑ میں سازشیں کی جا رہی ہیں، یہ سازشیں کون کر رہا ہے یا کروا رہا ہے اس کو بے نقاب بھی نہیں ہونے دیا جا رہا ہے اس وجہ سے حالات مزید کنفیوژن میں چلے جا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری جو 2005ء سے کینیڈا میں مستقل رہائش اختیار کر چکے تھے، اچانک پاکستان آئے اور سیاست نہیں، ریاست بچانے کا نعرہ لگایا جس کا واحد مقصد اس موقع پر الیکشن ملتوی کرا کے غیر جمہوری سیٹ اپ قائم کرانا تھا۔ انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا اور اس کے نتیجے میں حکومت ِوقت سے معاہدہ طے پایا جس میں کہا گیا کہ الیکشن بروقت ہی ہوں گے، الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے امیدواروں کی اسکروٹنی کیلئے 10 کے بجائے30دن کا وقت ہوگا۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63 پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کیلئے مزید 27جنوری کو حکومت اور طاہر القادری کے درمیان مذاکرات ہوئے مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا اور معاہدے میں جو شرائط طے ہوئی تھیں ان کی عملی شکل بھی سامنے نہ آئی مثلاً دس دن کے اندر اسمبلیوں کو تحلیل اور نگران حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا جائے گا چنانچہ ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کیلئے 7فروری کو سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی جس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں آئینی تقاضے پورے نہیں کئے گئے، انہیں بڑی امید تھی کہ وہ سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیں گے۔ جب ان کی رٹ زیر سماعت آئی تو ان پر سب سے بڑا سوال یہ کیا گیا کہ وہ اپنا حق دعویٰ پہلے ثابت کریں، تین دن بحث کے بعد ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ تین دن سماعت تو ہوئی مگر رٹ کی اصل استدعا کو سنا ہی نہیں گیا۔
بظاہر یہ باب بند ہوگیا ہے جس کے بارے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کو ملتوی کرانے اور جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ اس فیصلے کو سراہا بھی گیا لیکن کچھ دیر کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری کو سارے سین سے الگ کرتے ہوئے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یہ جو سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے وقت آئینی تقاضے پورے نہیں کئے گئے اس لئے الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والے انتخابات متنازع ہوں گے؟ ایس ایم ظفر اس چیز کا اظہار کر چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں آئینی تقاضے پورے نہیں ہوئے‘ سابق وزیر قانون بابر اعوان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل مُک مُکا کے ذریعے ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ پہلے ایسے اٹھائے گئے سوالات پر ازخود نوٹس لیتی رہی ہے اب بھی ازخود نوٹس لینا چاہئے کیونکہ اس کے فوائد قوم کو حاصل ہوں گے۔ ہمارے تو وزیر داخلہ برطانوی شہریت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ دہری شہریت والے پارلیمینٹ میں بیٹھ کر قانون بنا سکتے ہیں تو یہ کس قانون کے تحت کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے تحفظات کا اظہار صرف طاہر القادری ہی نہیں کر رہے بلکہ عمران خان نے دو مرتبہ الیکشن کمیشن کو یادداشت دی ہیں کہ ضمنی انتخابات کے حوالے سے شکایات پر الیکشن کمیشن نے ایکشن نہیں لیا اور الیکشن ریفارمز کی بات کی گئی، ق لیگ نے بھی الیکشن کمیشن کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ادھر کراچی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں گھرگھر ووٹرز کی تصدیق کے حوالے سے جماعت اسلامی، ن لیگ اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں مسلسل الیکشن کمیشن کے نوٹس میں لا رہی ہیں کہ یہ تصدیق فوج کی نگرانی میں نہیں ہو رہی بلکہ ایک پارٹی نے مبینہ طور پر تصدیقی عملے کو یرغمال بنا رکھا ہے اور یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ ووٹر فہرستوں میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں ہوں گی۔ اس میں شک نہیں کہ چیف الیکشن کمشنر کی ذات کے حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت کو اعتراض نہیں لیکن الیکشن کے انعقاد کیلئے ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے جس میں چاروں صوبائی الیکشن کمشنر بھی شامل ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اب تک جس طرح کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ان کی سمت بھی شفاف الیکشن کی طرف سے جاتی ہے۔ خواہ یہ کسی دباؤ میں آکر اٹھائے گئے ہوں۔ مثال کے طور پر الیکشن کمیشن نے ایف بی آر اور اسٹیٹ بنک سے میٹنگ میں یہ حکمت عملی منظور کی ہے کہ ٹیکس چور اور قرضے معاف کرانے والے الیکشن نہ لڑ سکیں کیونکہ امیدوار کو نیشنل ٹیکس نمبر درج کرنا لازمی ہو گا، الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کے عمل کو30 دن تک بڑھانے کی بھی حمایت کی تھی مگر جب تک یہ تجویز قانون کی شکل اختیار نہیں کرتی یا وہ اصلاحات جو الیکشن کمیشن نے مسودہ قانون کی شکل میں پارلیمینٹ کو بھجوائی ہیں اگر وہ قانون نہیں بنتا تو کیسے ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن، الیکشن سے پہلے شفاف انتخابات کیلئے اقدامات کر سکے۔ ایسا نہ ہونے سے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا اور الیکشن پہلے سے زیادہ متنازع بن جائیں گے۔ ضروری ہے کہ الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے اسمبلیوں کی تحلیل سے پہلے الیکشن کمیشن کی تشکیل میں جو سقم رہ گیا ہے اسے دور کر دینا چاہئے اس کیلئے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد کسی نہ کسی طرف سے الیکشن کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کر دیا جائے گا کیونکہ اس چیز سے تو ہر ووٹر کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں اور ایک ووٹر کا ووٹ ضائع ہونے اور غلط استعمال کا احتمال تو ہے پھر نادیدہ قوتوں کا ایجنڈا پورا ہوگا اور کچھ ٹھیک نہیں ہو پائے گا!
تازہ ترین