• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ے این پی طویل جدوجہد، لازوال استقامت اور گراں قدر قربانیوں کے باعث اسفند یار ولی خان کی قیادت میں مرور ایام کے ساتھ ملک کی ایک بڑی اور اہم جماعت بن کر آسمان سیاست پر نمایاں ہے۔ اس جماعت نے خدائی خدمتگار تحریک نیپ اور این ڈی پی جیسی تختہٴ مشق بنی رہنے والی جماعتوں کے سیاسی بطن سے جنم لیا اور پھر انہی جماعتوں کے مشن کی تکمیل کیلئے میدان کارزار میں خود کو منواتی چلی گئی۔ پاکستانی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ رہا کہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) جیسی ترقی پسند و جمہوریت نواز ملک گیر جماعت کو نظر انداز کرنے کیلئے اسے علاقائی جماعت قرار دیا جاتا رہا، یہاں تک کہ اس کے قائدین کی حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرانے کیلئے تمام تر ناپسندیدہ حربے بروئے کار لائے گئے۔ دو مرتبہ اس جماعت پر پابندی لگی، چار مرتبہ اس کے قائد خان عبدالولی خان مرحوم پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ اس کے رہنما و کارکنوں کو ملک کی ہر جیل سے روشناس کرایا گیا لیکن جب اور جہاں وطن کی سلامتی اور ناموس کی بات آئی تو یہ جماعت مادر وطن کی حرمت کی خاطر قربانی کیلئے صف اول میں کھڑی دکھائی دی۔ سقوط ڈھاکا سے قبل ملک کو دولخت ہونے سے بچانے کیلئے مذاکرات اور بعدازاں ہندوستان کی قید سے 90 ہزار فوجیوں کی رہائی جیسے اقدامات میں نیپ کا کردار تاریخ کا روشن باب ہے۔اس جماعت کے زیر سایہ ملک کے تقریباً تمام بڑے ترقی پسند اور جمہوریت نواز رہنماؤں نے سیاست میں حصہ لیا۔ ایک زمانے میں نیپ ہی ملک کی سب سے بڑی جمہوری جماعت تھی۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی قومی اسمبلی میں ذوالفقار علی بھٹو قائد حزب اقتدار اور خان عبدالولی خان قائد حزب اختلاف تھے۔
ولی خان مرحوم اور ان کی جماعت نیپ اور این ڈی پی کو دیوار سے لگانے کی پالیسی اگرچہ بظاہر اسٹیبلشمنٹ کی تھی لیکن درحقیقت یہ پالیسی امریکہ کی سب سے بڑی و ناگزیر ضرورت تھی۔ امریکہ، روس و اشتراکیت کے خطرے کے پیش نظر خطے میں کسی ایسی جماعت کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہی نہ تھا جو کسی بھی طور امریکی سامراجی عزائم کی راہ میں مزاحم اور ملک میں غیر جانبدار خارجہ پالیسی اور جمہوری اقدار کی حامی ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نیپ کو زیر کرنے کیلئے جاگیرداروں و رجعت پسندوں کے گٹھ جوڑ اور اسٹیبلشمنٹ کے توسط سے خطے میں ایسی جماعتیں سامنے لائی جاتی رہیں جو امریکی سامراجی عزائم کی تکمیل میں ممد ومعاون ثابت ہو سکتی تھیں۔
یہ اسفند یار ولی خان کی خوش قسمتی ہے کہ اب خطے میں امریکی ترجیحات وہ نہیں رہیں جو ماضی میں تھیں اور اسی سبب خارجی محاذ پر اے این پی کو اب ان دشواریوں کا سامنا نہیں ہے جس سے ماضی میں ان کی پیشرو جماعت دو چار تھی۔ البتہ داخلی محاذ اے این پی کیلئے اس قدر گرم بنا دیا گیا ہے کہ سیکڑوں شہداء کا مقدس لہو بھی اسے ٹھنڈا نہیں کر سکا ہے۔ بعض حلقے اے این پی کو پہنچنے والے عظیم جانی و مالی نقصان کی وجہ امریکہ نواز پالیسی بتاتے ہیں لیکن وہ عملی طور پر اس کے شواہد پیش کر نہیں پاتے۔ گزشتہ روز کراچی میں آمد کے موقع پر پختونوں کے ہر دلعزیز رہنما شاہی سید کی رہائش گاہ پر اسفند یار ولی نے دو ٹوک الفاظ میں اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے راقم کو بتایا کہ ہمارے اکابرین نے ماضی میں غیر جانبدار خارجہ پالیسی کیلئے جدوجہد کی۔ ہم اب بھی اس پر قائم ہیں اور کسی بھی بیرونی ملک کی کسی بھی سطح پر غلامی کے قائل نہیں۔ اپنے موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوات میں امریکہ کی مخالفت کے باوجود ہم نے طالبان سے مذاکرات کئے اور آئندہ بھی غیر ملکی طاقت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف اپنے ملک و ملت کے مفاد کے تناظر میں ہی فیصلے کریں گے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ہونے والی تاریخ ساز اور بے مثال کانفرنس میں انہوں نے اپنی جماعت کی مذکورہ آزاد پالیسی کو اپنے عمل سے درست ثابت کر دکھایا، جب اے پی سی میں شریک 27جماعتیں طالبان سے مذاکرات پر متفق ہوئیں تو یہ اعزاز اے این پی کو ہی حاصل ہوا کہ اس نے طالبان سے تمام تر اختلافات کے باوجود مذاکرات کیلئے اتفاق رائے بنانے کا کارنامہ سر انجام دیا حالانکہ اس جانب گزشتہ گیارہ سال سے کوئی بھی جماعت جنبش تک نہ کر سکی تھی۔ یقیناً تمام جماعتیں دہشت گردی کے مستقل تدارک کیلئے اتنی ہی فکر مند ہیں جس قدر اے این پی ہے لیکن یہ کریڈٹ بہرنوع اے این پی ہی کے حصے میں آیا کہ اس نے دوچار گام آگے جا کر قومی مسئلے کے حل کیلئے ”قائدانہ“ کردار ادا کیا۔ یہ بھی اے این پی کے قائدین کی سیاست کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ جب بھی ملک و ملت کو کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو وہ ذاتی انا، جماعتی سوچ اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر لچک و رواداری کا مظاہرہ کر لیتے ہیں۔ خدائی خدمتگار تحریک اور مسلم لیگ کے اختلافات اور بعدازاں مسلم لیگ اور نیپ میں محاذ آرائی سے ایک جہاں واقف ہے لیکن جب ایوبی آمریت کیخلاف میدان سجا تو نہ صرف نیپ نے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں دن رات ایک کر دیئے بلکہ اُس خان عبدالقیوم خان سے بھی ہاتھ ملایا جنہوں نے خدائی خدمتگاروں پر ریکارڈ مظالم کئے تھے۔ بھٹو مرحوم کا دور نیپ کیلئے ابتلا اور صعوبتوں کا دور ثابت ہوا لیکن ضیاء الحق کے مارشل لاء کیخلاف جب جمہوریت کیلئے جدوجہد کی خاطر صف بندیاں ہونے لگیں تو خان عبدالولی خان نے محترمہ نصرت بھٹو کے ساتھ مل کر ایم آر ڈی کی داغ بیل ڈالی۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ حضرت باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد پر گامزن رہنماؤں نے تمام تر مصائب و آلام کے باوجود ہمیشہ قومی مفاد کو مقدم رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں اس جماعت نے اپنے شہداء کے مقدس لہو کو انتقام کا وسیلہ بنانے کے بجائے ان قربانیوں کو امن کیلئے بطور صدقہ پیش کیا۔ یہ کانفرنس شرکاء کے لحاظ سے گزشتہ گیارہ سال میں دہشت گردی کے تناظر میں ہونے والی سب سے بڑی قومی کانفرنس تھی۔ جس جانفشانی و اخلاص سے قدآور نمائندہ شخصیات ایک چھت تلے جمع ہوئیں، سیاسی و نظریاتی اختلافات کے باوصف وہ جس طرح مذاکرات کے ایک نکتے پر متفق ہوئیں، کانفرنس ہال میں انہوں نے جس باہمی محبت، رواداری اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا، یہ سارا عمل جہاں دہشت گردی کیخلاف قومی سوچ کا عکاس اور شرکاء کا اس اہم مسئلے میں دلچسپی کا آئینہ دار ہے وہاں یہ قومی رہنماؤں کا اے این پی پر اعتماد کا مظہر بھی ہے۔
جہاں تک نتائج کی بات ہے تو جیسا کہ اسفند یار ولی نے کہا کہ امید کی جانی چاہئے کہ یہ کانفرنس مفید اور مثبت نتائج کی حامل ثابت ہو گی۔ اسفند یار ولی کا یہ کہنا کہ ”ہم نے عزت مآب سیاسی قائدین کو اس لئے دعوت نہیں دی کہ انہیں کسی خاص نقطہٴ نظر پر قائل کیا جائے بلکہ اس کے برعکس ہم سیاسی قائدین کی اجتماعی دانش سے سیکھنا چاہتے تھے“۔ یہ طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ اے این پی نے کسی مخصوص زاویہ نگاہ کو محور نہیں بنایا بلکہ ہدف دہشت گردی تھا اور مقصد اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے قومی سوچ کو عوام سمیت تمام متعلقین کے علم میں لانا تھا۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اتفاق، مسئلے کے پائیدار حل کیلئے بنیادی طریقہ کار کے تعین کی نشاندہی لئے ہوئے ہے۔ اب یہ فیصلہ کن قوتوں کے فہم، دلچسپی، سنجیدگی کا امتحان ہے کہ وہ خطے سے متعلق ملکی مفاد کے تناظر میں اس قومی سوچ کو کس طرح کام میں لاتے ہیں۔ جہاں تک اے این پی کی بات ہے تو اس نے شرکاء پر روایتی کانفرنسوں کی طرح اپنا ایجنڈا مسلط نہ کر کے اور ان کے نقطہ نگاہ کو اپنی پارٹی پالیسی میں سمو کر مذاکرات کیلئے جو راہ ہموار کر لی ہے، وہ ان کی قومی سوچ کا بین ثبوت ہے۔
تازہ ترین