• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روزافزوں مہنگائی اور بےروزگاری سے بےحال ملک کی بھاری اکثریت کے لئے وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا یہ دعویٰ سوکھے دھانوں پانی پڑنے کے مترادف ہے کہ معیشت کی بحالی کے لئے حکومت نے جو مشکل فیصلے کیے تھے ان کے مثبت نتائج رونما ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں منعقدہ پریس کانفرنس میں حکومت کی معاشی حکمت عملی اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں اس کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عالمی مالیاتی اداروں سے دس سال کیلئے اضافی رقوم حاصل کرکے مالیاتی ذخائر کو بہتر کرنے کے علاوہ حکومتی اخراجات میں کمی، کابینہ کے ارکان، اعلیٰ سول و عسکری عہدیداروں کی تنخواہوں میں کٹوتی، پاک فوج کے بجٹ کو منجمد کرنے اور ٹیکس نیٹ میں اضافے کے اقدامات عمل میں لائے گئے۔ رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں دو بڑے خساروں پر قابو پالیا گیا جس سے نو ارب ڈالر کے تجارتی خسارے میں تیس فی صد اور حکومتی آمدن و اخراجات کے فرق میں چھتیس فیصد کمی واقع ہوئی۔ حکومت کی آمدن میں سولہ فیصد اضافہ ہوا جبکہ تین ماہ کے دوران اسٹیٹ بینک سے بھی کوئی قرض نہیں لیا گیا۔ حکومت کی نان ٹیکس آمدن بھی پچھلے سال کے مقابلے میں 140فیصد ہو گئی۔ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی سطح پر رکھ کر برآمدات میں معاون بنانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے گزشتہ تین ماہ سے ایکسچینج ریٹ مستحکم ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کے علاوہ بیرونِ ملک سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری میں تین سال کے بعد تیس کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ برآمدات کے شعبے اور اسٹاک مارکیٹ میں بھی مثبت رجحان پایا جاتا ہے۔ اگست سے اب تک اسٹاک مارکیٹ اٹھائیس ہزار سے بڑھ کر چونتیس ہزار پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ چھوٹے کاروبار کے فروغ کے لئے دو ہفتوں میں مکمل پالیسی آنے والی ہے۔ اسٹیٹ بینک اور پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے منافع میں معتددبہ اضافے کے علاوہ مائع قدرتی گیس کے پلانٹ کی نجکاری سے تیس کھرب روپے حاصل ہونے کی امید ہے۔ مشیر خزانہ کی فراہم کردہ یہ معلومات بلاشبہ نہایت حوصلہ افزا ہیں۔ تین دن پہلے گورنر اسٹیٹ بینک بھی اصلاحات کے نتیجے میں معاشی بہتری کا دعویٰ کرچکے ہیں لیکن کروڑوں پاکستانیوں کے لئے یہ دعوے اسی وقت بامعنی ہوں گے جب معیشت کی بحالی کے ثمرات ان کے شب و روز کی تلخیوں میں حقیقی کمی کا سبب بنیں، مہنگائی اور بیروزگاری کے عذاب سے نجات ملے اور زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر آئیں۔ اس کیلئے معاشی سرگرمیوں میں نجی شعبے کی بھرپور شرکت لازمی ہے جبکہ فی الوقت کاروباری برادری اور حکومت کے درمیان سخت کشیدگی پائی جاتی ہے جس کے باعث معاشی سرگرمی میں اضافے کے بجائے کمی ہورہی ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بجلی، گیس کی گرانی اور بھاری ٹیکسوں کے سبب صرف پشاور میں تین سو سے زائد یعنی تقریباً پچیس فی صد فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں اور دیگر بھی بندش کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ایک اور رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں گاڑیوں کی فروخت میں73 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور آٹو موبائیل کی پوری صنعت شدید بحران کا شکار ہے۔ کرپشن کے معاملے میں بھی ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کی پوزیشن میں دو ردرجے کی گراوٹ ظاہر کی ہے جو یقیناً فوری توجہ طلب معاملہ ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری ملک کی کم از کم 90فیصد آبادی کا اصل مسئلہ ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء سمیت تمام لازمی ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے جو کسی حد پر رکتا دکھائی نہیں دیتا۔ نجی تعلیمی اداروں کی منافع خوری نے بچوں کی تعلیم کا جاری رکھا جانا محال بنادیا ہے۔ عام آدمی کے لئے معاشی بہتری کی باتیں اسی وقت بامعنی ہوں گی جب ان حوالوں سے اسکے حالات میں بہتری آئے گی۔

تازہ ترین