• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال موسمِ سرما کے آغاز میں پانچ لاکھ تا ایک ملین پرندے سائبیریا سمیت دیگر سرد علاقوں سے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں تاہم اسی وقت ان مہمان پرندوں کو مارنے مالدار غیر ملکی شکاری بھی پاکستان آ موجود ہوتے ہیں جن میں کچھ تو شکار کا باقاعدہ پرمٹ بنواتے ہیں اور اُس کی مقررہ فیس بھی ادا کرتے ہیں جبکہ اکثریت غیر قانونی طور پر اُن کا شکار کرتی ہے جس میں مقامی افراد بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔ اِس سال بھی لاکھوں پرندوں نے سندھ کی کینچھر جھیل، ھالیجی جھیل اور اڈیرو جھیل کا رُخ کیا ہے لیکن ساتھ ہی شکاریوں نے جال اور بندوق کے ذریعے اُن کا غیر قانونی شکار بھی شروع کر دیا ہے۔ اِن مہمان پرندوں کے علاوہ پاکستان میں جنگلی حیات کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں جن میں چار سو سے زائد مختلف نسل کے جنگلی پرندے بھی شامل ہیں جو اپنی خوبصورتی کے باعث بہت مشہور ہیں۔ بڑھتے ہوئے غیر قانونی شکار کے باعث، مختلف نسل کے طوطے، مور، مرغ زریں، دانگیر، سرخہ اور بٹیر کی نسلیں معدوم ہو رہی ہیں۔ واضح رہے کہ پرندوں کی سلامتی، افزائشِ نسل اور اُن کو نسل کشی سے بچانے کیلئے حکومت سندھ کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق سندھ وائلڈ لائف بچاؤ قانون 1972ءکے تحت جنگلی حیات کے شکار اور ان کو پکڑنے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس سلسلے میں جو بھی اجازت نامے پہلے جاری کئے گئے تھے وہ تمام بھی منسوخ کر دیئے گئے تھے لیکن اب کھلے عام اِس قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے اِس کی پابندی اور مہمان پرندوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین