• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے 30سال پہلے طاہرالقادری صاحب پاکستان ٹیلی ویژن پر ہر اتوار کو شام7بجے تقریر کرتے تھے۔ اس زمانے میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن ہی ہوتا تھا۔ راقم ان کی تقریر بڑے انہماک سے سنتا تھا کیونکہ ان کی تقریروں میں بہت سی کتابوں کے دلائل ہوتے تھے۔ اگرچہ وہ تقریر کے دوران جذباتی ہو جاتے تھے ۔ ٹی وی اسکرین پر نیچے لکھا ہوا آتا تھا ”محمد طاہرالقادری“ میں ان کی تقریروں سے بہت متاثر ہوتا تھا۔کسی اتوار کو شاہ بلیغ الدین صاحب کی تقریر ہوتی تھی وہ بہت دھیمی آواز میں دلائل دیتے تھے۔کچھ عرصے کے بعد ان کے نام میں علامہ طاہرالقادری کا اضافہ ہو گیا پھر چند سال بعد انہوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور فرمایا کہ ان کو خواب میں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے۔ جب سے میرا دل کھٹا ہو گیا ہے کہ اس دنیاوی سیاست میں حضور ﷺ کا نام کیوں لیا جارہا ہے۔ 1994ء میں جب مشیر اطلاعات سندھ کے عہدے پر فائز تھا ، منہاج القرآن کراچی کے ناظم کے گھر پر ملنے کا اتفاق ہوا۔ جہاں علامہ طاہرالقادری ٹھہرے ہوئے تھے، ابھی ہم ان کے ساتھ بات چیت کررہے تھے کہ ان کے اسسٹنٹ نے آ کر بتایا حضرت آپ کے کل کے حیدرآباد جلسے کی خبر ٹی وی پر دکھائی جارہی ہے ۔ یہ سنتے ہی مولانا صاحب تیزی سے دوسرے کمرے کی طرف لپکے اور واپسی پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔
ایک بات میں نے نوٹ کی کہ جس گھر میں ان کا قیام تھا اس گھر کی سیڑھیوں اور ہر کمرے کے باہر ان کے کلاشنکوف بردار گارڈ کھڑے تھے۔ میں نے اس سے قبل کسی بھی سیاستدان کے گھر کے اندر گارڈ نہیں دیکھے تھے البتہ گھر کے باہر گارڈ ضرور ہوتے تھے پھر کچھ عرصے کے بعد ان کے نام میں پروفیسر کا اضافہ ہو گیا پھر اس کے بعد ڈاکٹر کا اضافہ بھی پڑھنے میں آیا پھر وہ ناراض ہو کر کینیڈا چلے گئے وہاں جا کر شیخ الاسلام کا بھی اضافہ ہو گیا پھر اچانک ہی ان کی واپسی کا اعلان ہوا پھر لاہور کا جلسہٴ عام ، دھرنا اور پھر معاہدہ اس حکومت سے جس کو وہ یزید سے تشبیہ دیتے تھے اور دھرنے کو قافلہٴ حسینی سے۔
اس دھرنے کے دوران چیف جسٹس صاحب کا نیب کو وزیر اعظم اور رینٹل پاور کے کیس کے تمام ملزمان کی گرفتاری کے حکم کے بعد چیف جسٹس زندہ باد کے نعرے خود علامہ ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری المعروف شیخ الاسلام نے اپنے بلٹ پروف کنٹینر سے باہر تشریف لا کر اپنے ساتھ مظلوم دھرنے کے شرکاء سے لگوا کر فرمایا کہ آدھے مطالبات پورے ہو گئے اور آدھے مطالبات جب تک پورے نہیں ہوں گے دھرنا جاری رہے گا۔ بقایا آدھے مطالبات تو کیا پورے ہوتے، اچانک حکومتی وفد سے مغلوب ہو کر جلد بازی میں کہہ دیا، ہمارے مطالبات کی ضمانت حکومت نے دے دی ہے لہٰذا دھرنا ختم جبکہ شرکاء کو پہلے بتایا تھا کہ جب تک وزیراعظم کو برطرف نہیں کیا جائے گا ہم دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ پھر اعلان کیا کہ اب پنجاب اور دوسرے بڑے شہروں جن میں فیصل آباد، لاہور، کوئٹہ ، ہر جگہ لانگ مارچ شروع کیا جائے گا۔ ابھی ان اعلانوں کی بازگشت بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کو بھی چیلنج کر دیا۔ 3دن تک عدلیہ نے بہت صبر و تحمل سے ان کو سنا، جہاں جہاں وہ جذباتی ہوئے ان کو تنبیہ بھی کی مگر جب ان کا مقدمہ خارج ہوا تو وہ بپھر گئے اور باہر آکر میڈیا کے سامنے اپنی بھڑاس نکالی ۔آج کئی ماہ گزر چکے ہیں کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آسکا کہ علامہ صاحب کیوں اس ملک میں واپس آئے، انہوں نے نہ اپنی کینیڈین شہریت لوٹائی ہے اور اب وہ پاکستان میں اسمبلی کی رکنیت کے اہل بھی نہیں رہے پھر کیوں الیکشن ملتوی کرانے کے درپے ہیں۔ جس عدلیہ کو وہ زندہ باد کے نعروں سے نواز رہے تھے آج اسی عدلیہ کو للکار رہے ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ نے ان کے عزائم بھانپ کر الیکشن کو سبوتاژ ہونے سے بچا لیا ہے، جس سے وہ بے نقاب ہو گئے۔ اب انہوں نے دوبارہ بڑے شہروں میں لانگ مارچ کی دھمکی بھی دی ہے اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس کی آڑ میں وہ کیا انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف عدلیہ سے2دو ہاتھ کرنے کے بعد، اب انتظامیہ خصوصاً پنجاب میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مرکزی حکومت نے ان کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف پر دباوٴ بڑھایا جا سکے اور اگر الیکشن ملتوی نہ ہو سکیں تو پھر نواز شریف کو تحریک انصاف کے ووٹروں میں تقسیم کروا کر پی پی پی دوبارہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں آجائے۔ عوام ان کے اس گورکھ دھندے سے حیران و پریشان ہیں ان کے نئے نئے اعلانات بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع ہور ہے ہیں۔ ان کے معتقدین تو ابھی تک ان کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دے رہے اور حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں مگر سمجھدار پڑھے لکھے طبقے میں وہ اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں ۔ مگر حضرت اپنی گٹھڑی سے روز ایک نئے اعلان سے قوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہیں۔
اس وقت ایک مسئلہ الیکشن کمیشن کو درپیش ہے وہ یہ کہ جن پارٹیوں نے اپنے الیکشن نہیں کرائے ہیں وہ اتنے کم وقت میں کیسے یہ الیکشن کرائیں گی اور جن قومی ، صوبائی اور سینیٹ کے 200/اراکین نے ابھی تک اپنی ڈگریو ں کی تصدیق نہیں کرائی ان سے وہ کیسے نمٹے گا؟ فی الحال اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان مشکل حالات میں پاکستان کو شرپسندوں سے بچا لے اور الیکشن پُرامن کرا کر اس افراتفری اور دہشت گردی سے نجات دلوا دے۔ (آمین)
تازہ ترین