• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برصغیرکے عظیم شاعر مرزا غالب نے بالکل صحیح فرمایا تھا کہ
غارت گر ناموس نہ ہوگر ہوس زر
کیوں شا ہد گل باغ سے بازار میں آوے
یعنی”ہوس زر گر ناموس کو غارت کرنے والی نہ ہوتی تو پھولوں سے محبت کرنے والے باغ کو چھوڑ کر بازار میں کیوں آتے؟“لاہور کی مثالی شہری سوسائٹی(ماڈل ٹاؤن کوآپریٹو سوسائٹی ہر اس الزام کی زد میں آرہی ہے کہ اسے ہوس زر باغ سے بازار کی طرف دھکیل رہی ہے۔
بلاشبہ لاہور کے ماڈل ٹاؤن کو صحیح معنوں میں ایک نمونے کی انسانی آبادی بنانے میں اس سوسائٹی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس آبادی کی پلاننگ اور انتظامیہ کچھ ایسی ہے کہ پچاس ساٹھ سالوں کے بعد بھی اس آبادی کی گنجائش اگلے پچاس سالوں کی کفالت بھی کرسکتی ہے اور ماحولیات میں کثافت کے کچھ زیادہ اندیشے نہیں ہوں گے۔
اس آبادی کے دو بڑے پارک اس شہر کے پھیپھڑوں کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ تازگی اور کشادگی کے احساس کو برقرار رکھتے ہیں مگر یہاں کے مکینوں اور شہریوں کو پتہ چلا ہے کہ ماڈل ٹاؤن کوآپریٹو سوسائٹی اپنے دو پارکوں کو کمرشل ازم کی تحویل میں دینے اور انتظامیہ کی ہوس زر کی تسکین کاارادہ رکھتی ہے اور بڑی تیزی سے باغ کو چھوڑ کر بازار کی طرف جارہی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا سوسائٹی اپنے پارکوں میں فوٹریس سٹیڈیم جیسے پلے ہاؤس یا جائے لینڈ کی تعمیر کرنے اور پارک میں44کنال کے چار ریستوران بنانے اور 55 کنالوں پر کئی منزلہ شاپنگ پلازے تعمیر کرنے کا پروگرام رکھتی ہے۔ اس کے خلاف ماڈل ٹاؤن کے مکینوں
اور شہریوں نے گزشتہ روز ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جس میں انسانی حقوق کی پاکستان کونسل کے جناب آئی اے رحمان ممتاز ماہرین تعمیرات و دانشور نیئر علی دادا اور لاہور بچاؤ تحریک کی کنونیئر محترمہ عمرانہ ٹوانہ نے بھی شرکت کی اور لاہور شہر کی ایک خوبصورت ماحولیات والی آبادی کو برباد کرنے کے پروگرام کے خلاف نعرے لگا ئے۔
اس آبادی میں مقیم اور پاکستان کونسل آف آرٹس کے سابق سربراہ جناب نعیم طاہر نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگر نواز شریف پارک میں بچوں کی تفریحات کے سامان فراہم کئے جاتے تو خوشی ہوتی کہ اس معصوم کلاس کی تفریحات کا بھی کسی کو خیال آیا ہے مگر عوام کی صحت اور سیر سپاٹے کے لئے مخصوص پارکوں کو ماحولیات کی تباہی اور بربادی کی ہر جسارت کی ڈٹ کر مخالفت ہونی چاہئے۔ تحفظ ماحولیات ایکٹ مجریہ2012ء کے تحت کمیونٹی کے استعمال کے لئے مخصوص اراضی کسی حالت میں بھی کسی اور مقصد کے لئے استعمال میں نہیں لائی جاسکتی۔ صرف ایک سڑک کی ضرورت ہے جو کہ مخصوص اراضی میں سے پوری کی جاسکتی ہے۔ سال2013ء کے پہلے مہینے میں ”پارک بچاؤ تحریک“ کا قیام اس نیک مقصد کے لئے ہوا تھا کہ عوامی پارکوں کو ماحولیات کی بہتری کے لئے کمرشل ازم کی زد میں آنے سے بچایا جائے۔ اس تحریک نے لاہور بچاؤ تحریک کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے رکن تنویر احمد نے تحفظ ماحولیات کی ایجنسی اور چیف منسٹر پنجاب کے دفتر شکایات کے نام اور لاہور ہائی کورٹ سے تحفظ فراہم کرنے کی درخواستیں کی ہیں۔ تنویر احمد کے خیال میں حکومت اور ہائی کورٹ اس وقت تک شنوائی یا انصاف کی فراہمی کا نہیں سوچیں گے جب تک عوامی سطح پر قانون کے تحفظ کے لئے واویلا نہیں کیا جائے گا۔ تنویر احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعلقہ حکام کو اس سلسلے میں تین خطوط بھیجے ہیں اور تیسرے خط میں ماڈل ٹاؤن لاہور کے183شہریوں اور مالکان مکانات کے دستخط موجود ہیں۔میجر تنویر احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے 16 دسمبر 2012ء کو رجسٹرار کوآپریٹو سے ملاقات کی تھی ان سے پوچھا گیا کہ جب مذکورہ بالا پارکوں کی کمرشلائزیشن کی تجاویز پیش کی گیں تو ماڈل ٹاؤن کے مکینوں نے ان کی مخالفت کیوں نہیں کی تھی۔ رجسٹرار کو بتایا گیا کہ جس اجلاس میں یہ تجاویز پیش کی گئیں وہ غیر قانونی تھا کیونکہ اس میں ماڈل ٹاؤن کے مکینوں کی نمائندگی نہیں تھی بیشتر لوگ اس کمرشلائزیشن سے فائدہ اٹھانے والے تھے۔
تازہ ترین