• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ریاض علیمی

نئی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے ’’تبدیلی ‘‘کی نوید سنائی تھی۔ تو تبدیلی تو واقعی آگئی ہے،جیسے منہگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، دو وقت روٹی کھانے والے اب ایک وقت کھا رہے ہیں،بنیادی اشیائے ضروریہ عوام النّاس کی پہنچ سے دُور ہوگئی ہیں۔یہ تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے؟ستم بالائے ستم یہ کہ وزیرِ اعظم قوم سےفرما رہے ہیں کہ ’’ گھبرانے کی ضرورت نہیں ، بس آپ ٹیکس دیں، مُلک ترقّی کرے گا۔ ‘‘

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس قوم کے پاس دو وقت روکھی سوکھی کھانے کے پیسے نہیں ،وہ ٹیکس کہاں سے دے؟بے شک ٹیکس دینا چاہیے ،تاکہ مُلک کا نظام درست طریقے سے چلے اور قوم کا قرض بھی اُترے، لیکن چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والوں، تنخواہ دار یا غریب طبقے سے ٹیکس لینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ تنخواہ دار طبقے کی تو تنخواہ بعد میں ہاتھ آتی ہے، بینک ٹیکس پہلے کاٹ لیتا ہے۔مگر جن کی آمدن کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں، وہ ٹیکس دینے میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔

وزیرِ اعظم مستقل عوام کو ٹیکس دینے کا درس دے رہےہیں اور اس کے فوائد بھی بتارہے ہیں، لیکن عوام کو ریلیف کب ملے گا ، یہ کوئی نہیں بتا رہا۔ حکمرانوں کا ٹیکس ریکارڈ چیک کرلیں، اربوں، کھربوں کمانے والے چند ہزار روپے ٹیکس دے کر جان چھڑالیتے ہیں اور کوئی انہیں پکڑنے کی جسارت بھی نہیں کرتا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ مزید ٹیکسز چھوٹے تاجروں اور معمولی تنخواہ دار طبقے کی بجائے بڑے تاجروں اور لاکھوں تنخواہ لینے والوں کے اوپر لگائے جاتے۔

مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں قانون صرف عوام النّاس کے لیے ہے ، خواص ہر جگہ اپنے لیے استثنا ڈھونڈ ہی لیتے ہیں ۔ حکمران بڑے زور و شور سے ٹیکس کے حوالے سےدوسرے ممالک کی مثالیں تو دیتے ہیں، لیکن اُن ممالک کے عوام کو ملنے والی سہولتوں کا ذکر نہیںکرتے۔یہاں تو ادویہ تک پہ ٹیکسز لگاکر انہیں غریب کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے۔

غریب عوام تو ماچس کی ڈبیا تک پر ٹیکس دیتے ہیں ،پھر بھی نان فائلر ہیں، یعنی ٹیکس بھی دو اور ٹیکس چور بھی کہلاؤ… سوال تویہ ہے کہ ہم جو ٹیکس دے رہے ہیں، وہ جا کہاں رہا ہے؟ سیدھی سی بات ہے، عوام کو ریاست پر اعتماد ہی نہیں رہا۔ ہم ابھی وہ وقت نہیں بھولے جب ’’قرض اتارو، مُلک سنوارو‘‘ کا نعرہ لگا کر عوام کو لُوٹا گیا تھا اورابھی وہ حالیہ نعرے، جب ڈیمز کے نام پر فنڈز اکٹھے کیے گئے ،چیف جسٹس کی رخصتی کے بعد اب کوئی ڈیمز کا نام بھی نہیں لے رہا۔ 

تو وہ پیسا، جو ڈیم کے نام پر عوام سے اکٹھا کیا گیا بلکہ لُوٹا گیا، کہاں ہے۔ کہا جا رہا ہے، ٹیکسز کی مَد میں وصول پائی جانے والی رقم عوام پر خرچ ہوگی۔ ہم کیسے یقین کرلیں۔ کون دے گا اس بات کی ضمانت؟ اور جو ضمانت دے گا، اُس کی ضمانت بھلا کون دے گا۔

تازہ ترین