• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسکاٹ لینڈ کی ڈائری۔طاہر انعام شیخ
2014ء میں اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی میں اگرچہ آزادی پسند 45کے مقابلے میں 55فیصد سے واضح طور پر ہار گئے تھے لیکن وہ اپنا حوصلہ نہیں ہارے۔ ان کے خواب ابھی زندہ ہیں اور وہ ہر سال اسکاٹ لینڈ کے مختلف شہروں میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر آزادی کیلئے جلوس نکالتے ہیں بریگزٹ کیلئے ریفرنڈم نے ان کی تحریک کو مزید تقویت دی ہےجس میں سکاٹش عوام نے 38فیصد کے مقابلے میں 62فیصد سے بدستور یورپی یونین کے ساتھ اپنے لئے ووٹ دیئے تھے۔ اگرچہ خارجہ پالیسی لندن میں مرکزی حکومت کے پاس ہے لیکن اس کے باوجود سکاٹش عوام اپنی رائے پر عمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر وفاقی حکومت ان کی رائے کا احترام نہیں کرتی تو ان کو برطانیہ سے علیحدہ ہونے کا ایک مزید جواز مل جاتا اور اس کے بارے میں برطانیہ کے چند سابق وزیراعظم وارننگ بھی دے چکے ہیں سکاٹش حکومت اور سکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نکولا سٹرجن اس بارے میں اپنا ایک واضح پروگرام دے چکی ہیں کہ وہ 2020کے درمیانی عرصے میں آزادی کا دوسرا ریفرنڈم کرانا چاہتی ہیں جس کے لئے انہیں سابقہ ریفرنڈم کی طرح قانونی ہونے کے لئے وفاقی حکومت کی طرف سے سیکشن 30کی منظوری کی ضرورت ہے لیکن اب تک ہونے والے تمام شواہد میں پتہ چلتا ہے کہ انہیں کنزرویٹو حکومت کی طرف سے یہ منظوری ملنے کے امکانات ناممکنات میں شامل ہیں۔ وزیرداخلہ پریتی پٹیل اپنے سے پہلے والوںکے بیان کو دہرا چکی ہیں کہ ہمارے وزراء گزشتہ ریفرنڈم کے فیصلے کا احترام کریں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ نئے ریفرنڈم کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ نکولا سٹرجن اس وقت کی سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا سوچ رہی ہیں اور انہوں نے لیبر کے لیڈر جرمی کورین کے ساتھ مرکزی حکومت میں تعاون کیلئے یہ پیشگی شرط عائد کر دی ہے کہ وہ ان کے وزیراعظم بننے کیلئے اسی وقت ساتھ دیں گی جب وہ آزادی کے دوسرے ریفرنڈم کی اجازت دینے کا وعدہ کریں۔ جیرمی کورین ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ وہ آزادی کے دوسرے ریفرنڈم کے راستےمیں حائل نہیں ہوں گے۔ اگرچہ وہ فوری طور پر ایسا نہیں چاہتے اب بھی انہوں نے نکولا سٹرجن کی تجویز کو اگرچہ پسند تو نہیں کیا لیکن اس کو مسترد بھی نہیں کیا۔ صورتحا ل ابھی غیریقینی کا شکار ہے لیکن دوسری طرف آزادی کے متوالے مزید انتظار کرنے کو تیار نہیں۔ سابق ہیلتھ سیکرٹری الیکس نیل اور خاصی تعداد میں دیگر افراد کا کہنا ہے کہ سکاٹش نیشنل پارٹی وزیراعظم بورس جانسن سے اس بات کی تحریری گارنٹی لے کہ اگر سکاٹش نیشنل پارٹی سکاٹش پارلیمنٹ کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرتی ہے تو وہ نئے ریفرنڈم کی اجازت دے دیں گے اور اگر بورس جانسن اس بات پر رضا مند نہیں ہوتے تو پھر ہمیں آئندہ الیکشن کو ریفرنڈم کی حیثیت دے دینی چاہئے اور جیت کی صورت میں برطانیہ کے ساتھ آزادی کے معاہدے کی تفصیلات پر بات چیت کریں اور پھر اس معاہدے کے متن پر ہم ایک ریفرنڈم کرائیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ برطانوی حکومت اس کی اجازت دیتی ہے کہ نہیں۔ اگر برطانوی حکومت سکاٹش عوام کی جمہوری خواہشات کا احترام نہیں کرتی تو ہم کو اپنا حق خود اختیاری استعمال کرنے کا حق حاصل ہےلیکن سکاٹ لینڈ کی حکومت کی سربراہ نکولا سٹرجن ان انتہا پسندانہ خیالات سے متفق نہیں کہ سپین Spainکے صوبے کاتالونیا کی طرح ہم بھی ایک یکطرفہ ریفرنڈم کرائیں یا مرکزی حکومت سے سیکشن 30کی اجازت کے بغیر کوئی کارروائی کی جائے۔ نکولا سٹرجن جو کہ سکاٹ لینڈ کی آزادی کے بعد یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ آزادی کے اس طریقہ کار کو بیرونی دنیا اورخصوصاً یورپی یونین قبول نہیں کرے گی۔ یہ ایک قانونی طریقہ نہیں ہو گا۔ ہمیں دنیا کو واضح طور پر دکھانا ہو گا کہ ہمارے عوام کی اکثریت نے آزادی کے حق میں رائے دی ہے اورہم نے تمام مروجہ قوانین کی پابندی کی ہے۔ ہم کوئی شارٹ کٹ روٹ اختیار نہیں کریں گے جس کے نتائج خطرناک ہوں۔ واضح رہے کہ 2015کے جنرل الیکشن میں سکاٹش نیشنل پارٹی کو تاریخ ساز فتح ملی تھی ۔ اس نے کل 59 سکاٹش نشستوں میں سے 56پر قبض کر لیا تھا لیکن اس وقت بھی اس نے صرف 50فیصد ووٹ لئے تھے جو کہ آزادی کیلئے اکثریتی تعداد 51پر پورا نہیں اترتی۔
تازہ ترین