• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جسٹس فائز عیسیٰ کیس، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ریفرنس کی بنیاد بنا، سپریم کورٹ میں منیر ملک کے دلائل

عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدارتی ریفرنس کیخلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت

اسلام آباد( رپورٹ :۔رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران درخواست گزار، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیارکیا ہے کہ میرے موکل کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس دائر کرنے کا بنیادی مقصد مرئی اور غیر مرئی قوتوں کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے۔

 سب کو معلوم ہےکہ میرے موکل مستقبل کے چیف جسٹس آف پاکستان ہیں، اگر عدلیہ نے اس معاملے پر کسی بھی قسم کی مصالحت کی تو ہم سب کے لئے عدلیہ کی آزادی ایک خواب بن کر رہ جائے گی، میرے موکل نے بطور جوڈیشل کمیشن ’سانحہ کوئٹہ‘ (جس میں 75افراد جاں بحق ہوئے تھے) سے متعلق اپنی فائنڈنگ میں بلوچستان میں اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے تھے۔

 جب کہ فیض آباد انٹر چینج دھرنا کیس کے حوالے سے جو فیصلہ قلمبند کیا تھا، اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ نہ تو خفیہ ادار ہ ملکی سیاسی معاملات میں مداخلت کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرسکتا ہے، اپنے فیصلے میں ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں سیاسی معاملات میں مداخلت سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جانا چاہیے تھے۔

 فیصلے میں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، پیمرا، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اعجا زالحق اور دیگر کے کردار کا ذکر بھی کیا گیا تھا جبکہ پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں 55 افراد کے سرعام قتل اور 100افراد کے زخمی ہونے کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔

 فیصلے میں تحریک لبیک کے دھرنے میں اداروں کے ملوث ہونے کا بھی ذکر کیا گیا تھا، ایک افسر کی جانب سے دھرنا دینے والوں میں پیسے بانٹنے اور اپنے حلف سے روگردانی کے مرتکب افسران کے خلاف ان کے اداروں کے سربراہان اور وزارت دفاع کو کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل 10رکنی فل کورٹ بنچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکلاء پینل کے سربراہ منیر اے ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ پچھلی سماعت پر کچھ آبزرویشنز دی گئی تھیں میں ان کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میرے موکل نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تعصب یا ذاتی عناد کا الزام نہیں لگایا۔

جب کہ انہیں اس مقدمہ سے علیحدگی اختیار کرنے والے دونوں فاضل ججوں پر بھی اس طرح کا کوئی اعتراض نہیں تھا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے بینچ نے ساتھی ججوں پر آپ کے موکل کا اعتراض مسترد کردیا تھا لیکن دونوں فاضل ججوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بنچ سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری آبزرویشن اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب سے متعلق ہے اور میں اس کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہوں لیکن میں اس کیس میں عدلیہ پر دکھائی دینے والے اور نہ دکھائی دینے والے دباؤ کے حوالے سے بات کروں گا، صدارتی ریفرنس کا بنیادی مقصد اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو دباؤ میں لانا ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ میرے موکل کی اہلیہ نے 2004 میں لندن میں پہلا فلیٹ خریدا تھا اور اس کے 5 سال بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے تھے، 2013 میں ان کی ایک بیٹی اور بیٹے کے نام پر دو مزید فلیٹ خریدے گئے تھے اور وہ اس وقت بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔

میرے موکل بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر بھی ان فلیٹوں کے مالک یا ان سے فائدہ اٹھانے والے یا بے نامی مالک نہیں، میرے موکل، وزیر اعظم اور صدر پاکستان دونوں فریقین ہی آئینی عہدوں کے حامل ہیں اور توقع ہے کہ دونوں فریقین آئینی عہدوں کے تقدس کا خیال رکھیں گے۔

صدارتی ریفرنس دائر ہونے سے پہلے میرے موکل کے خلاف شکایت آئی تھی، جس کے بعد متعلقہ موادجمع کیا گیا، صدر مملکت نے تیسرے درجے پر اپنی رائے قائم کی جبکہ چوتھے مرحلے پر باضابطہ طور پر ریفرنس دائر کیا گیاتھا۔

جوڈیشل کونسل نے جس انداز میں کارروائی کو چلایا ہے وہ بھی سامنے لائیں گے، 28 مئی 2019 سے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر میرے موکل اور ان کے خاندان کے افراد کی کردار کشی کی جارہی ہے، آئینی طور پر میرے موکل نے بھی مستقبل میں چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنا ہے۔

ریفرنس کے شکایت کنندہ نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ میرا موکل جج رہنے کے اہل ہی نہیں، میرے موکل کے والد قاضی عیسیٰ قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے سے قبل جس لاء فرم میں تھے وہ قومی خزانے کو سب سے زیادہ ٹیکس دیتی تھی، جب انہیں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جارہا تھا تو کیا خفیہ اداروں نے ان کے اثاثوں کی تصدیق نہیں کی ہوگی؟

 میں عدالت کو سب سے پہلے اس معاملہ کے پس منظر سے آگاہ کروں گا،سانحہ کوئٹہ میں 75 افراد جاں بحق ہوئے تھے، اس کی ذمہ داری کے تعین کے لئے میرے موکل پر مشتمل یک رکنی کمیشن مقرر کیا گیا تھا، فیض آباد دھرنا سے متعلق فیصلہ دو رکنی بینچ نے جاری کیا تھا جبکہ دونوں سیاسی جماعتوں کی نظرثانی کی درخواستوں میں صرف ان کے موکل ہی کو نشانہ بنایا گیاہے، پی ٹی آئی اور متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے جو نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئی ہیں ان میں بڑی سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے فاضل وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی کی یہ درخواستیں ابھی عدالت میں زیر التواء ہیں، اس لئے ان کے حوالے سے سوچ سمجھ کر بات کریں۔

جس پر انہوں نے کہا کہ سات ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے لیکن ابھی تک ان درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔

فاضل جج نے کہا درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے کوئی بھی سپریم کورٹ پر دباؤ نہیں ڈال سکتا، جس پر فاضل وکیل نے کہا میں صرف نظرثانی کی درخواستوں میں استعمال کی گئی زبان پر بات کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ نظرثانی کی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے جہاں دو رکنی بینچ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے وہیں پر انہوں نے فیصلہ قلمبند کرنے والے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مبینہ طور پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹانے کی استدعا بھی کی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے اپنی نظرثانی کی الگ الگ درخواستوں میں میرے موکل پر جو الزامات عائد کیے ہیں حیرت انگیز طور پر ان کے پیر اگراف نمبرز بھی ایک جیسے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ویل کوارڈینیٹڈ‘ جس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا جبکہ جسٹس فیصل عرب نے کہا لگتا ہے کہ ان دونوں درخواستوں کا فونٹ بھی ایک ہی ہے، جس پر ایک بار پھر کمرہ عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں کب آئی تھیں اور آپ کے موکل کے خلاف صدارتی ریفرنس کب دائر کیا گیا تھا؟

 انہوں نے بتایا کہ فیض آباد دھرنا کیس کافیصلہ 6 فروری 2019 کو سنایا گیا تھا، اس کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں 7 مارچ کو دائر کی گئی تھیں، 10 اپریل 2019 کو وحید ڈوگر کی شکایت موصول ہوئی تھی اور اسی روز ہی میرے موکل کے خلاف صدارتی ریفرنس بھی دائر کردیا گیا تھا، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ان سے استفسار کیا، کیا کسی عدالتی فیصلے کی بنیاد پر کسی جج کے خلاف ر یفرنس دائر ہوسکتا ہے؟

فاضل وکیل نے کہا وفاقی وزیر قانون تو یقینا جانتے ہی ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کو اس طریقے سے اس کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتاہے، بیرسٹر فروغ نسیم نہ صرف پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں بلکہ بیرسٹر بھی ہیں اور وہ صدر مملکت کو یہ رائے دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو کیسے ہٹایا جاسکتا ہے؟

فیض دھرنا کیس کے فیصلے میں تحریک انصاف کی جانب سے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست میں وزارت دفاع کی درخواست سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے استفسار کیا کہ کیا ان پر رجسٹرار آفس نے اعترضات لگائے تھے تو انہوں نے بتایا کہ جی ہاں وزارت دفاع اور پی ٹی آئی کی درخواستوں پر اعتراضات لگائے گئے تھے اور انہوں نے دوبارہ درخواستیں جمع کروائی ہیں۔

جس پرجسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو درخواستیں واپس لی جا چکی ہیں ان کا حوالہ نہ دیں، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ میں ان درخواستوں کا حوالہ دے کر بنیادی طور پر درخواست گزاروں کا اپنے موکل جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف مائنڈ سیٹ ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حیرت ہے کہ ایم کیو ایم کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات کیوں نہیں لگائے ہیں؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم کسی کے دماغ کو تو نہیں پڑھ سکتے ہیں تاہم نظرثانی کی ان درخواستوں پر متعلقہ بنچ ہی فیصلہ کرے گا۔

فاضل وکیل نے کہا کہ حکومتی اتحادی جماعتوں نے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے کے لئے ایک مشترکہ کوشش کی حالانکہ ’فیض آباد دھرنا کیس‘ کا فیصلہ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جاری کیا تھا۔

تاہم اسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قلمبند کیا تھا جس پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے ان سے استفسار کیا کہ اگر یہ ریفرنس دونوں فاضل ججوں کے خلاف ہوتا تو کیا بدنیتی نہ ہوتی؟ 

فاضل وکیل نے کہا کہ اس صورت میں میرا موقف بھی مختلف ہوتا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے درخواست گزار چاہتے ہوں کہ ان کی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہ کریں؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کسی جج کو ضمیر کی آواز تک بینچ سے الگ نہیں ہونا چاہیے، دونوں درخواستیں ایک ہی فونٹ میں لکھی گئی ہیں، جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے دونوں جماعتوں کے وکلاء نے آپس میں درخواستوں کے ڈرافٹ کا تبادلہ کیا ہے او ر شاید دونوں جماعتوں نے کمپیوٹر بھی ایک ہی استعمال کیا ہے، ہوسکتا ہے دونوں نے کٹ اینڈ پیسٹ کیا ہو۔

فاضل وکیل نے کہا کہ طبیعت کی خرابی کی بناپر وہ زیادہ دلائل نہیں دے سکتے ہیں جس پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی، آج بھی منیر ملک ہی دلائل پیش کریں گے ۔

تازہ ترین