• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، انشورنس کمپنیاں ضمانتی شرائط پوری کریں، FBR کا انتبا ہ

اسلام آباد(مہتاب حیدر) افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایف بی آر نے انشورنس کمپنیوں کو شرائط پوری کرنے کا کہہ دیا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا ہے کہ کچھ انشورنس کمپنیاں ٹیکس حکام کی ہدایت کے مطابق اوسط فیس عائد نہیں کرر ہیں۔ 

تفصیلات کے مطابق، ٹیکس حکام نے پیر کے روز انشورنس کمپنیوں کو خبردار کیا ہے جو کہ ان کی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں اربوں روپے کی انشورنس پالیسیوں میں کردار سے متعلق ہے کیونکہ اس میں سے زیادہ تر تجارتی سہولت کا غلط استعمال کرکے مبینہ طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں۔

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ کچھ انشورنس کمپنیاں ٹیکس حکام کی ہدایت کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کارگوز پر اوسط فیس عائد نہیں کر رہیں۔ اسی لیے انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر ریونیو بورڈ کی ہدایات پر عمل کریں۔

کسٹم قوانین کے تحت افغان درآمد کنندگان، کسٹم ایجنٹوں کے ذریعے یا پاکستان میں ٹرانسپورٹ آپریٹرز کے ذریعے فناشل سیکورٹی فراہم کرنے کے پابند ہوتے ہیں جو کہ انشورنس ضمانت کے طر پر ہوتی ہیں، جو کہ انشورنس کمپنی سے لی جاتی ہے۔ یہ ایک سال کی مدت کے لیے کارآمد ہوتی ہے اور پاکستان میں قابل نقدی ہوتی ہے۔

کسٹم قوانین کے تحت ٹرانزٹ آپریشن کے لیے فنانشل سیکورٹی کی رقم کا تعین ایک نظام کے تحت ہوتا ہےجو کہ کسٹمز کی جانب سے کی گئی جانچ پڑتال کی بنیاد پر ہوتا ہے جو کہ روانگی دفتر میں کیا جاتا ہے لہٰذا یہ تمام درآمدی لیویز کو پورا کرتا ہے۔

تاہم، انشورنس کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ہم انشورنس خدمات ایف بی آر کے لیے ڈیوٹی محفوظ کرنے کے لیے فراہم کررہے ہیں۔ 

انشورنس کمپنی کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر اشیا افغانستان نہیں پہنچ پاتی تو انشورنس کمپنیاں کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ضمانتی رقوم ادا کرتی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ انشورنس ضمانت کی شرط اشیا کی محفوظ ٹرانسپورٹیشن یقینی بنانے کے لیے رکھی گئی ہے، جو کہ ٹرانزٹ معاہدے کے تحت ہے۔ 

تاہم، ایف بی آر کو معلوم ہوا ہے کہ جاری کردہ ضمانتیں اربوں روپے کی ہیں، جنہیں حاصل نہیں کیا گیا ہے اسی لیے ایف بی آر نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ایسے طریقہ کار سے اجتناب کیا جائے تاکہ کسی بھی تادیبی کارروائی سے بچا جاسکے۔

ایک کسٹم عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ضمانتیں بینکوں سے کیش نہیں کرائی جاسکتیں اس لیے یہ رقم اربوں روپے تک پہنچ جاتی ہے۔

چیئرمین ایف بی آر کا یہ اقدام صحیح وقت میں اٹھایا گیا ہے کیوں کہ پاکستان 24 گھنٹے طورخم سرحد کھولنے کی تیاری کررہا ہے۔ پاکستان نے 24 گھنٹے کی بنیاد پر کلیئرنگ سسٹم لگایا ہے لیکن افغانستان شام اور رات کے اوقات میں سرحدی دروازے بند کردیتا ہے۔ افغان ٹریڈ ٹرانزٹ حال ہی میں بحال ہوئی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ دوطرفہ تجارت میں حالیہ برسوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔لیکن اب امید ہوگئی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہوگا اور یہ 5ارب ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔

انشورنس کمپنی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ٹرانزٹ اشیا مختلف اوقات میں سرحد پار کرتی ہیں اور جیسے ہی افغانستان میں کسٹم حکام اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اشیا وہاں پہنچ چکی ہیں تو انشورنس کمپنیوں کے ضمانتیں خودبخود ختم کردی جاتی ہیں۔

عہدیدار نے اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین ایف بی آر کس بنیاد پر انشورنس کمپنیوں پر الزام عائد کر رہے ہیں۔ 

پاکستان کسٹمز ذرائع کا کہنا ہے کہ انشورنس کمپنیوں اور بینکوں کی دی گئی مالی ضمانتیں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لحاظ سے قابل قبول ہیں۔

کراچی کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری محمد عامر کا کہنا ہے کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کو دیکھنے والے کسٹمز ایجنٹ جو کہ افغان درآمد کنندگان کو دیکھتے ہیں وہ انشورنس کمپنیوں سے فنانشل ضمانت بھی یقینی بناتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انشورنس ضمانت اس وقت تک قابل قبول ہے جب تک اشیا کلیئر نہیں ہوجاتیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر خدشات ہیں کہ نیشنل ٹریڈ ڈیٹا میں پاکستان کی درآمدات میں کمی ظاہر ہورہی ہے۔جب کہ دوسری جانب ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹرانزٹ ٹریڈ کی کلیئرنس جعلی دستاویزات کی بنیاد پر ہورہی ہے تو یہ دھوکہ دہی ہے۔

ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈ کی ڈائریکٹر زیبا بشیر کا کہنا ہے کہ انشورنس کمپنیوں کی مالیاتی ضمانتوں پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔کسٹمز مالیاتی ضمانتوں کے ذریعے ڈیوٹی اور ٹیکسز حاسل کرتی ہےاور اس ضمن میں افغانستان بھجوائی جانے والی اشیا کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

تازہ ترین