• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر میں بھارت جو کر رہا ہے اور دنیا اُس پر جو چپ سادھے بیٹھی ہے اُس کے پیچھے بھارت کی خارجہ پالیسی ہے اور بھارت کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کے لئے امریکہ کی ایشیا پیسفک کی حکمت عملی کو سمجھنا پڑے گا۔ یہ امر بالکل واضح ہے کہ بھارت کے اپنے دونوں اہم ہمسایوں یعنی پاکستان اور چین سے تعلقات کسی اچھی راہ پر گامزن نہیں ہیں اور بالکل اسی طرح امریکہ بھی چین سے ایک واضح خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ بھارت کا معاملہ اس سے بھی آگے کا ہے وہ مشرقی ایشیا کے اپنے قریبی ممالک میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لئے امریکہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ امریکہ سوویت یونین کے انہدام کے فوری بعد سے ہی چین کی جانب متوجہ ہو گیا تھا مگر ابھی اس کے بھارت سے تعلقات کسی ایسی نوعیت تک نہیں پہنچے تھے کہ وہ بھارت کو اپنے کیمپ میں باضابطہ طور پر شامل کر لے لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جانب قدم بڑھانا شروع کر دیئے تھے۔ کلنٹن کے دور میں امریکہ میں سرکاری طور پر اس بات کا برملا اظہار شروع ہو گیا تھا کہ بھارت دنیا کی 10ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ درحقیقت ایسے بیانات بھارت کو دانہ ڈالنے کے مترادف تھے کہ اگر وہ تیار ہو تو امریکہ اس سے کام لینے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ کلنٹن کے دور میں ہی ان دونوں ممالک کے درمیان منٹس آن ڈیفنس ریلیشنز پر دستخط ہوئے جو امریکہ بھارت کے موجودہ تعلقات کے لئے ایک سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان دستخطوں کے بعد دونوں ممالک یہ واضح طور پر محسوس کرنے لگے کہ وہ ایک دوسرے کے کام آ سکتے ہیں۔ اس تصور میں چین سے دونوں کی مخالفت ایک مشترکہ پہلو رکھتی تھی اور رکھتی ہے۔ امریکہ چین کے حوالے سے ان دنوں ایک نئی حکمت عملی تیار کر رہا تھا اسی دوران پاک بھارت ایٹمی دھماکوں کے بعد ایسا واقعہ ہوا کہ جس سے بھارت نے زبردست سفارتی فائدہ اٹھایا اور وہ امریکہ کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وہ کارگل کا بحران تھا۔ کارگل کی غلطی کی وجہ سے امریکہ اور بھارت میں جو برف بھی تک جمی ہوئی تھی وہ پگھل گئی اور امریکہ نے واضح طور پر بھارت کی سلامتی کے حوالے سے اپنی حساسیت کا بھرپور اظہار شروع کر دیا۔ کلنٹن نے اگلے سال مارچ 2000میں پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا جس میں انہوں نے بھارت کو امریکہ کا فطری اتحادی قرار دیا۔ بش کے دور میں معاملات سول نیوکلیئر ڈیل تک چلے گئے مگر اوباما کے دور میں یہ بالکل واضح ہو گیا کہ امریکہ بھارت کو ایک ایسے آلے کے طور پر دیکھ رہا ہے کہ جو اس کے لئے چینی اثر و نفوذ کو روکنے کے کام آئے گا۔ اوباما نے ’’یو ایس دی بیلنسنگ ٹو ایشیا پیسفک اسٹرٹیجی‘‘ کا اعلان کیا اور اس حکمت عملی میں بھارت کی خصوصی اہمیت کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا گیا۔ امریکہ سیکرٹری دفاع لیون پینٹا نے 2012میں ایک بیان دیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کا بھارت سے اتحاد چین کو مد نظر رکھ کر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ

We will expend our military Partnership and our presence in the arc extending from western pacific and east India into the Indian Ocean region and south asia. Defence Cooperation with India is a Lynchpin in this strategy.

لیون پینٹا کے اس بیان کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لئے ہمیں کانگریشنل ریسرچ سروس کی اس رپورٹ کی طرف رجوع کرنا ہو گا کہ جس میں واضح طور پر چین کا نام لیکر ایشیا پیسفک حکمت عملی کو بیان کیا گیا ہے۔ ان دونوں بیانات کو سامنے رکھا جائے تو بالکل واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اور چین ایشیا میں مد مقابل ہے اور امریکہ بھارت کو اس ضمن میں ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ ساتھ رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ امریکہ بھارت کی فوجی صلاحیتوں کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس سارے معاملے میں اہم ترین معاملہ بھارتی بحریہ کا ہے اور امریکہ اس کو بہتر کرنے میں بھارتی اقدامات کا ساتھ دے رہا ہے۔ امریکہ کا یہ ارادہ ہے کہ وہ 2020تک اپنی 60فیصد بحری طاقت کو ایشیا پیسفک میں منتقل کر دے۔ واضح رہے کہ آبنائے ملاکا چین کے لئے اس کی بحری تجارتی نقل و حرکت کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے اور یہ بھارتی جزائر انڈیمان اور نکو بار کے بہت نزدیک ہے۔ جہاں سے بھارت کے لئے اپنی موجودگی کو ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس لئے امریکہ اور بھارت میں میری ٹائم تعاون بہت بڑھ گیا ہے۔ آبنائے ملاکا اور گردو پیش میں بھارتی اور امریکی تعاون کو سمجھنے کے لئے تین واقعات کی بہت اہمیت ہے۔ 2002میں انڈیا نے Operation enduring freedom آبنائے ملاکا میں امریکی تعاون سے کیا اور جہازوں کو بحفاظت اسکاٹ کیا تھا جبکہ 2004کے سونامی میں دونوں ممالک کی بحریہ نے مل کر کام کیا۔ اس طرح 2006میں Non Combatant evacution Operationکو لبنان میں سر انجام دیا۔ ان واقعات نے ہی بھارت امریکہ کے تعلقات اور ایشیا پیسفک میں امریکی حکمت عملی کو ایک رخ دے دیا اور اب یہ رخ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بحر ہند میں یہ دونوں ممالک ڈیجیٹل ہیلمٹ مائونٹڈ ڈسپلے، جوائنٹ بائیو لوجیکل ڈی ٹیکشن سسٹم موبائل جنریٹرز، نیوکلیئر بائیو لوجیکل وار فیئر پروٹیکشن گیئر جیسے منصوبوں پر مل کر کام کر رہے ہیں جبکہ جیٹ کے انجن، ایئر کرافٹ کیریئر ٹیکنالوجی، سی 130کے پرزوں اور دیگر ہتھیاروں پر کام ہو رہا ہے۔ اسی طرح امریکہ نے بھارت کو 22 Predator sea Guardian Hi-tech unmanned Aerial Vehicles دیئے ہیں۔ ان کی بدولت بھارت کے لئے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ بحر ہند میں چین کی بحری سرگرمیوں کو مانیٹر کر سکے۔ تجارتی مفادات اور شمالی کوریا کے مسئلے کو ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ اس معاملے پر بھی انڈیا نے شمالی کوریا سے اپنے معاملات کو سرد کر لیا ہے مگر چین پیچھے نہیں ہٹا۔ اس صورتحال نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ بھارت اب اس خطے میں مکمل طور پر امریکی پالیسی کو اختیار کرنے پر گامزن ہے۔

تازہ ترین