• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فخرو بھائی کے ناتواں کندھوں پر کیسے کیسے بھاری بوجھ ڈال دیئے گئے ہیں اس عمر میں تو خود آدمی اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا مگر کیسی ستم ظریفی ہے کہ اب فخرو بھائی کو اپنے ہی چار کمیشن کے ممبران میں سفید یا کالی کرولا گاڑیوں کے فیصلے بھی کرنے پڑ رہے ہیں اور کئی ایسے مشکل امتحانی پرچے بھی انکو حل کرنے کیلئے دیئے جا رہے ہیں جیسے11پی پی کےMPAs کا پنجاب میں لوٹا ہونے کا پرچہ، یہ پرچہ کہ اصلی پی پی پی پر کس کا قبضہ ہوگا کیونکہ بھٹو اور بینظیر کی پارٹی کو تو کیو لیگ کے وسیم سجاد نےNGO بنا دیا ہے اور اب غلام حسین صاحب کی پی پی پی یا غنویٰ بھٹو اس پارٹی کی اصلی جانشین ٹھہیریں گی اور مسئلے اور پرچے249/ان جعلی ڈگری والوں کے بھی حل کرنے ہیں جن میں فخرو بھائی کو کچا چبا جانے کی صلاحیت رکھنے والے سیاسی شیر، بھیڑیئے، ہاتھی اور بندر سب شامل ہیں۔
ادھر شعیب سڈل نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ایک لمبی فہرست فخرو بھائی کو بھیج دی ہے جس میں 70% ٹیکس کی چوری کرنے والوں کے نام ہیں اگر اس فہرست پر عمل شروع ہوا تو بڑے بڑے پھنے خان سیاست اور الیکشن سے باہر ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر قادری صاحب نے جو پٹارہ کھولا تھا وہ اب انہوں نے بند کر دیا ہے اور پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنے کا اعلان کر دیا ہے مگر اس پٹارے سے کچھ سانپ تو نکل گئے اور پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔ قادری صاحب نے ایک کام ضرور کامیابی سے مکمل کر دیا اور وہ فخرو بھائی کے چار کے ٹولے کو متنازع بنانا تھا۔ عدالت نے قادری صاحب کی تو درگت بنا دی مگر اس چار کے ٹولے کے بارے میں کچھ نہیں کہا اور میری اطلاع ہے کہ کئی دوسری پارٹیاں دوبارہ اس کیس کو عدالت لے جانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ یہ کہانی تو میں نے لکھ ہی دی کہ اس چار کے ٹولے میں تین لوگ زرداری صاحب کے حامی ہو سکتے ہیں اور جو باقی دو رہ جاتے ہیں ان میں فخرو بھائی اور ایک ن لیگ کے نامزد کردہ ممبر ہیں۔ وقت آنے پر اگر کوئی تین اکٹھے ہوگئے تو فخرو بھائی نہ تو ویٹو کر سکتے ہیں اور نہ احتجاج لہٰذا پی پی پی کو کوئی گہری تشویش نہیں اور بڑے آرام سے ہر چیز تاخیر سے کرنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ اسمبلی آخری دن تحلیل ہوگی، اپوزیشن سے مشاورت آخری وقت ہوگی، عبوری وزیراعظم کا نام اتنا خفیہ رکھا گیا ہے کہ اصلی وزیراعظم کو بھی نہیں معلوم۔ مگر ہر تدبیر کا توڑ بھی کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ شروع میں تو ایک ایسے زمینوں کا کاروبار کرنے والے کرتا دھرتا کا نام آ رہا تھا جس پر نہ صرف زرداری صاحب بلکہ میاں نواز شریف بھی آمادہ تھے پھر ایک خاتون کا نام سامنے آیا اور خدا کا کرنا کہ ایک کالم نے جو اسی جگہ پر چھپا ان کا خواب چکنا چور کر دیا اب وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے کوئی ایسا خواب دیکھا ہی نہیں تھا۔ چلئے مان لیتے ہیں مگر کچھ دن تو محترمہTV پر بہت وزیراعظم کے انداز میں گفتگو فرماتی رہیں کہ میں یہ کر دوں گی اور وہ کر دوں گی پھر ان کے پیچھے جتنی چڑیاں پھڑپھڑا رہی تھیں وہ سب اڑ گئیں۔ کچھ اور بھی چڑیاں اڑانے والے اس خواب کے سرور میں نظر آئے کہ شاید وہ وزیراعظم بن جائیں اور شاید بن بھی جائیں کیونکہ جب ساری دنیا اسامہ بن لادن کو رو رہی تھی ہمارے لیڈر پلان بنا رہے تھے کہ الیکشن کمیشن کو کیسے قابو کریں گے اور کر بھی لیا۔ ایک فخرو بھائی کو شو پیس بنا کر اوپر بٹھا دیا گیا مگر وہ بھی کئی ون آن ون خفیہ ملاقاتوں کے بعد جو فخرو بھائی نے بڑے بڑے ایوانوں میں اپنی تقرری سے پہلے کیں اب ان ملاقاتوں کی تفصیل تو وہ خود ہی بتاسکتے ہیں مگر مجھے ڈر یہ ہے کہ ان کے 86-85 سال کے تجربہ کار کندھے کہیں زیادہ دباؤ میں آگئے تو وہ اسپتال میں نہ داخل ہوجائیں اور ایک نیا پٹارہ کھل جائے۔ عدالت کو فوری طور پر یہ مسئلہ حل کرنا چاہئے کیونکہ دن تو تھوڑے ہیں مگر اصل مقصد تو ایک قابل قبول اور شفاف الیکشن ہے اور اگر دنوں کی گنتی میں وہ مقصد ہی پورا نہ ہوا تو یہ ساری پھرتیاں کس کام کی۔ کہیں یہ نہ ہو کہ نیا نظریہ ضرورت یہ سامنے آجائے کہ کچھ بھی ہوچاہے کوئی کالا چور الیکشن کروا رہا ہو اس ضرورت کے تحت انتخاب ہونا چاہئے خدارا اصل مقصد کو سامنے رکھیں۔ یہ الیکشن کمیشن بہت متنازع ہوگیا ہے ابھی اسے فکس کردیں جو ممبران کالی اور سفید کرولا گاڑیوں پرلڑ سکتے ہیں ان سے اتنے بڑے بڑے قومی مسئلے حل کرانے کی کوشش ہی بے سود ہے۔
ذرا سوچئے اور TV پر اشتہار دیکھ کر نہیں بلکہ اپنے غور و فکر کے وقت ان چار لوگوں اور فخرو بھائی کو کتنے بڑے بڑے پتھر اٹھانے ہیں یا راستے سے ہٹانے ہیں۔ 249 جعلی ڈگری والے، 70% ٹیکس کے نادہندگان، 62/63 پر پورا نہیں اترنے والے شرابی کبابی زانی، چور ڈاکو لٹیرے اٹھائی گیر، ہر قسم کی دھاندلی کرنے والے وڈیرے اور چوہدری اور ملک اور مخدوم، جعلی پیر اور ہر قانون اور ہر ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والے مافیا کے ڈان ان سب کا مقابلہ کیا وہ لوگ جو گاڑیوں کے رنگ پر لڑتے ہیں، کر پائیں گے اور سارا اختیار جان بوجھ کر ان لوگوں کے ہاتھ میں دیا گیا ہے کہ جب وقت پڑے کسی کو دبا دیا جائے، کسی کو خرید لیا جائے اور کسی کو بہلا پھسلا کر منوا لیا جائے۔ ایک تجزیہ نگار نے تو جو تصور کھینچی وہ دل ہلا دینے والی ہے۔ اگر معاملات ان چار کے ٹولے کے ہاتھوں میں چلے گئے اور ہر ایک کا اپنا گھوڑا دوڑ رہا ہوا تو پھر جو دو ممبر حضرات ایک فیصلہ پر اکٹھے ہوگئے وہی آخری فیصلہ ہوگا یعنی کوئی صرف ایک ممبر کو خریدے اور دوسرے کے ساتھ مل کر ملک اور قوم کے سارے اہم فیصلے کروا لے۔ یہ ہوگا تو نہیں مگر تھیوری میں تو ہوسکتا ہے تو پھر ایسا وقت ہی کیوں آنے دیا جائے۔ ابھی وقت ہے کہ اس سسٹم کو ٹھیک کر لیا جائے۔ اب کچھ ایسی خبریں جو ابھی خبریں نہیں بنی مگر جلد بن جائیں گی۔ سنا ہے ایک پولیس والے صاحب ہمارے ایک بہت ہی اونچے عہدے پر فائز سیاسی لیڈر کی زندگی پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ یہ صاحب مرحومہ بینظیر کے بہت قریب تھے اور انہی کی ٹیم کے ایک دوسرے اہم رکن جو بعد میں اہم عہدوں پر فائز ہوگئے اور ہیں لڑ کر اپنا دور دراز کے علاقے میں تبادلہ کروا بیٹھے اب وہ ہزارہ میں کتاب کی تیاری میں ہیں، کیا لکھیں گے خود ہی سوچ لیں۔ ایک اور خبر کہ جن طاقت کے مراکز نے پورے پانچ سال بڑے صبر و تحمل کے ساتھ ملک کی کشتی ڈوبتے دیکھی ہے اور لوٹ مار کا بازار اپنے سامنے گرم ہوتے دیکھا ہے وہ سنا ہے اب عبوری حکومت کے قیام تک انتظار کریں گے اور پھر اپنا وہ کردار ادا کریں گے جو انہیں بہت پہلے کرنا چاہئے تھا یعنیTV کے ایک اشتہار کے مطابق بس کرو، بس کرو اور بس۔ جو بس نہیں کر رہے اور صرف بسیں چلانے میں مصروف ہیں انہیں یہ پیغام مل گیا ہے کہ کچھ لوگ رخت سفر باندھ کر تیار بیٹھے ہیں اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ ”ہم تو چلے پردیس ہم پردیسی ہوگئے“ یا ”لے چلے ہم تو اپنا دھن ساتھیوں، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو“۔
تازہ ترین