• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لبیبہ جاوید

چالاک ہرن نہ صرف اپنی پھرتی اورتیزی کی وجہ سے جنگل میں مشہور تھا بلکہ اپنے نام کی طرح بے حد چالاک بھی تھا۔ ایک دن وہ جنگل میں مزیدار پھلوں اور دوسری کھانے پینے کی چیزوں کی تلاش میں گھوم رہا تھا، اگر چہ وہ چھوٹا تھا ،مگر وہ بزدل نہیں تھا، اسے پتا تھا کہ بہت سے بڑے بڑے جانور اسے اپنی خوراک بنانا چاہتے ہیں۔اچانک چالاک ہرن کو چیتے کے دہاڑنے کی آواز آئی۔

چالاک ہرن کیسے ہو تم؟ میں بہت بھوکا ہوں۔ میرے لیے کچھ کرو۔ دیکھو اگر تم چاہو تو میرے دو پہر کا کھانا بن سکتے ہو۔ لیکن چالاک ہرن بالکل چیتے کا کھانا نہیں بننا چاہتا تھا۔ آخر اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور اپنے ذہن سے کوئی ترکیب سوچنے لگا۔ اس نے ایک کیچڑ کا ڈھیر پڑا دیکھا۔

” لیکن چیتے میں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ یہ آج بادشاہ کا کھاناہے اور اس کی حفاظت کررہا ہوں۔“

” یہ کیچڑ۔“ چیتے نے حیرانی سے کہا۔

” ہاںیہ ہی ہے بادشاہ کا کھانا۔ “ چالاک ہرن نے کیچڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور تمہیں کیا پتہ کہ اس کا ذائقہ دنیا بھر میں سب سے اچھا ہوتا ہے۔ بادشاہ ہر گز نہیں چاہتا کہ کوئی اور اسے کھائے۔“

چالاک ہرن کی یہ باتیں سن کر پہلے تو چیتا دیر تک اس کیچڑ کو تکتا رہا، پھر بولا، ”میں بادشاہ کے اس کھانے کو چکھنا چاہتا ہوں۔“

” نہیں نہیں چیتے، بادشاہ سلامت بہت غصہ ہوں گے۔‘‘

” لیکن صرف تھوڑا سا چکھوں گا۔ بادشاہ کو اس کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔“

” اچھا تو پھر ایسا کرو کہ مجھے یہاں سے بہت دور جانے دو، تاکہ کوئی مجھ پر الزام نہ لگا سکے۔“

” ٹھیک ہے تم یہاں سے جاسکتے ہو۔“ چیتے کا اتنا کہنا تھا کہ چالاک ہرن نے وہاں سے دوڑ لگا دی اور یہ جا وہ جا۔ اس کے بعد جب چیتے نے وہ مٹی سے بھرا کیچڑ چکھا تو آخ تھو کرتا رہ گیا۔ اسے چالاک ہرن کی یہ حرکت بہت بری لگی۔ اس نے اسے سزا دینے کافیصلہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ ہرن بہت تیز دوڑتا ہے، مگر اس کی رفتار اس سے زیادہ ہے۔ یہ سوچ کر اس نے پھر چالاک ہرن کا پیچھا کیا۔ بالآخر اس نے اسے جالیا۔

چالاک ہرن تم نے ایک بار پھر مجھے دھوکہ دیا ہے۔ اب تمہیں میرا کھانا بننا پڑے گا۔“

اب چالاک ہرن نے دوبارہ ادھر ادھر دیکھا۔ اسے ایک شہد کاچھتہ نظر آیا۔ اس نے کہا۔ ” مگر چیتے میں آج تمہارا کھانا نہیں بن سکتا کیوں بادشاہ نے مجھے اس ڈھول کی حفاظت کرنے کا کہا ہے۔“

”بادشاہ کا ڈھول ؟ مگر کہاں ہے؟“ چیتے نے حیرانی سے پوچھا۔

” یہ رہا۔“ چالاک ہرن نے شہد کے چھتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس ڈھول کی آواز پوری دنیا میں سب سے اچھی ہے۔ بادشاہ ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی آواز سنے۔“

چیتے نے کہا۔ ”لیکن میں اس بادشاہ کے ڈھول کو بجا کر دیکھنا چاہتا ہوں۔“

” نہیں نہیں چیتے۔ بادشاہ بہت غصہ ہوں گے۔“

” صرف ایک چھوٹی سی ضرب۔ صرف ایک مرتبہ جس کا بادشاہ کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔“

”اچھا تو پھر مجھے یہاں سے بھاگنے دو، تاکہ مجھے پر الزام نہ آسکے۔“

” ٹھیک ہے تم بھاگ سکتے ہو۔“

اب تو چالاک ہرن فوراً رفو چکر ہوگیا۔

” واہ بھئی ۔ بادشاہ کا ڈھول کتنا اچھا ہے۔“ چیتے نے اتنا کہا اور درخت پر چڑھ کر اسے ہاتھ سے ایک ضرب لگائی۔

” بز زززز۔“ اب کیا تھا۔ ساری شہد کی مکھیاں باہر نکل آئیں اور چیتے کو کاٹنا شروع کردیا۔ اس نے درد سے چیخنا شروع کردیا۔ کسی طرح جلدی سے درخت سے نیچے اترا اور ایک تالاب میں کود کر جان بچائی۔

اب تو چیتا غصہ میں بھرا ہوا تھا۔ وہ ہر قیمت پر چالاک ہرن کو سبق سکھانا چاہتا تھا۔ اس نے پھردوڑ لگائی اورتیزی سے چالاک ہرن کا پیچھا کرتے ہوئے اس جالیا۔

” چالاک ہرن تم نے دو مرتبہ مجھے دھوکہ دیا۔ لیکن اب تمہیں میرا کھانا بننا پڑے گا۔“ چیتے نے غصے میں کہا۔

چالاک ہرن نے پھر ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اسے ایک بڑا سا اژدھا نظر آیا۔ وہ اپنا جسم لپیٹ کر مزے سے سورہا تھا۔

” نہیں نہیں چیتے۔ میں تمہارا کھانا نہیں بن سکتا کیوں کہ بادشاہ نے مجھے اپے بیلٹ کی حفاظت کرنے کو کہا ہے۔“

”بیلٹ! کہاں ہے بادشاہ کی بیلٹ؟“ چیتے نے حیران ہو کر سر گھمایا۔

” وہ رہی۔“ چالاک ہرن نے اژدھے کی جانب اشارہ کیا۔ اس کا رنگ برنگا جسم دیکھ کر چیتا بہت متاثر ہوا۔

”دیکھو چالاک ہرن کیا میں یہ بیلٹ پہن کر دیکھ سکتا ہوں؟“

” نہیں نہیں۔ اگربادشاہ سلامت کو پتہ چل گیا کہ ان کی بیلٹ کسی اور نے پہنی ہے تو وہ بہت غصہ ہوں گے۔“

” صرف ایک بار۔“

” اچھا تو پھر مجھے بھاگنے دو تاکہ مجھ پر الزام نہ آسکے۔“

چیتے نے پھر ہر مرتبہ کی طرح اسے بھاگنے کی اجازت دے دی۔

” ارے واہ بادشاہ کی بیلٹ۔“چیتے نے یہ کہا اور لپک کر اژدھے کو اٹھالیا۔ ابھی اس نے کھڑے ہو کر بڑے فخر سے وہ ”بیلٹ“ اپنی کمر میں لپیٹی۔ اژدھا پہلے تو سمجھ نہ سکا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ پھر اچانک اس نے بڑا سا منہ کھولا۔ چیتا اتنے بڑے اژدھے کودیکھ کر ڈر گیا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد کبھی چیتے نے ہرن کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔

تازہ ترین