• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک بحث چلتی رہی کہ بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا حرام ہے،دلیل کے طورپر اس موقف پرقائم لوگ قرآن کی وہ آیت پیش کرتے ہیں، جو ولدیت بدلنے کی ممانعت کے بارے میں ہے ، بعض لوگ اسے حرام اور کفار کا طریقہ قرار دیتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں بیان فرمائیں؟(معاذ احمد، کراچی)

جواب:اپنا نسب حقیقی باپ کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کرنے کی قرآن کریم میں صریح ممانعت میں آئی ہے :ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ:’’اور اُس (اللہ تعالیٰ) نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا، یہ سب تمہاری اپنی خودساختہ باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ حق (بات) ارشاد فرماتا ہے اور وہ راہِ راست کی طرف رہنمائی فرماتا ہے، (سورۃ الاحزاب:4)‘‘۔اور فرمایا:ترجمہ:’’ان (لے پالکوں) کو ان کے (حقیقی) باپوں کے ناموں سے پکارو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی سب سے زیادہ انصاف کی بات ہے،(سورۃ الاحزاب: 5)‘‘۔احادیثِ مبارکہ میں اپنی پدری نسبت غیر باپ کی طرف منسوب کرنے پر وعید آئی ہے:(۱)ترجمہ:’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:جس شخص نے جانتے بوجھتے اپنانسب اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اورکی طرف منسوب کیا ،تو اس نے کفر کیا اور جواپنے آپ کو اپنی قوم کے علاوہ کسی غیر کی طرف منسوب کرے ، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے،(صحیح بخاری: 3508)‘‘ ۔(۲)ترجمہ:’’ حضرت سعد رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے (اپنا نسب) اپنے (حقیقی) باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا (حقیقی) باپ نہیں ہے، تو جنت اس پرحرام ہے‘‘(صحیح بخاری:6766)۔(۳)ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺنے فرمایا:اپنے آبا ء سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے،(صحیح بخاری: 6768)‘‘۔واضح رہے کہ ان احادیث میں کفر سے اصطلاحی کفر مرادنہیں ہے، جو ایمان اور اسلام کے مقابل ہے، بلکہ حقیقت کا انکار مرادہے اوراس معنیٰ میں بھی کفر کا کلمہ قرآن وحدیث میں آیاہے ۔(۴)ترجمہ:’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اﷲﷺنے فرمایا:جس نے اپنا نسب اپنے( حقیقی) باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اﷲاور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے،(سُنن ابن ماجہ : 2609)‘‘۔ان تمام دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب بیان کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف کرنا حرام ہے،مثلاً غیر سید کا اپنے نام کے ساتھ سید یا غیر صدیقی کا صدیقی لکھنا ، البتہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہریا مشرب کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً :پاکستانی، عربی، دمشقی، کوفی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشندی، چشتی، سہروردی، شازلی، وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں، لیکن اس سے ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں، اس کی مثالیں قرآن میں موجود ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(۱)ترجمہ:’’ اللہ نے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی،(سورۂ تحریم:10)’’۔(۲)ترجمہ:’’ اور اللہ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ،(سورۂ تحریم:11)‘‘۔(۳)ترجمہ:’’ اوریاد کرو جب عمران کی بیوی (حنّہ بنت فاقوذا) نے کہا: اے پروردگار! میرے پیٹ میں جو (جنین یعنی بچہ) ہے ،اسے میں نے تیری نذر کیا،(سورۂ آل عمران:35)‘‘۔اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ میں اپنے پیدا ہونے والے بچے کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہوں۔

(…جاری ہے…)

تازہ ترین