• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں اس وقت قدرتی موسم سرد ہونے کے باوجود سیاسی موسم دن بدن گرم ہوتا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں فصلی بٹیرے اڑتے جارہے ہیں اور نگران حکومت بلکہ حکومتوں کے امیدواروں کی ٹریفک بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے نظام کو چلانے کے امور سے وابستہ تمام اہم اداروں سے ان کے روابط میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے زیادہ اپنے آپ کو وفادار ثابت کرنے میں مصروف ہے جبکہ پاکستان کی معیشت سے وابستہ اداروں میں خاموشی اور صنعت و تجارت کا کاروبار کرنے والے خاموشی سے نئے نگران سیٹ اپ کا انتظار کررہے ہیں کہ شاید ان کے آنے سے کچھ معاملات ٹھیک ہوجائیں اور کرپشن ،توانائی ،بدانتظامی، کمزور گورننس سمیت مختلف مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں، ان حلقوں کو یہ معلوم نہیں کہ اب جو نگران آرہے ہیں ان کا ایجنڈا کچھ ہی ہوگا جس میں امریکہ نگران اور دلچسپی سے بھرپور بین الاقوامی ایشو، جنوبی ایشیاء میں امن کا قیام، افغانستان کے حوالے سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری، پاکستان کی ایٹمی تنصیبات اور اثاثوں کے حوالے سے قومی رویے میں نرمی، عدلیہ اور میڈیا کے لئے بہتر حکمت عملی جیسے امور قابل ذکر ہیں۔ اس پس منظر میں طالبان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لئے میاں نواز شریف کی خاموش نگرانی میں معاملات آگے بڑھائے جارہے ہیں اس سے تو ایسے نظر آرہا ہے کہ امریکہ خواہش رکھتا ہے کہ پاکستان میں دائیں بازو کی قیادت کو آگے لا کر افغانستان کے حوالے سے نئے امریکی ایجنڈے پر عمل کرایا جائے جس کا ایک اہم نکتہ”نیو سلک روڈ“ بھی ہے۔ اسکے تحت امریکہ بھارت کو لاہور، اسلام آباد کے ذریعے افغانستان اور پھر سنٹرل ایشیاء تک رسائی دلانا چاہتا ہے۔ اسلئے ایسے نظر آرہا ہے کہ نیا نگران وزیر اعظم بھی میاں نواز شریف کی چوائس پر ترجیحی طور پر لیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں انکے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کا نام بھی لیا جارہا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہ نام پیپلز پارٹی کی طرف سے تجویز کیا گیا ہے جن کی عزیزداری موجودہ وفاقی وزیرچوہدری احمد مختار سے ہے۔ اسکے علاوہ سابق گورنر پنجاب شاہد حامد اور سٹیٹ بنک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کے نام بھی اسلام آباد کے اہم ترین حلقوں میں زیر غور ہیں مگر دونوں شخصیات چونکہ عملاً غیر سیاسی ہیں مگر اپنے اپنے پیشہ میں بہترین ہونے کے باوجوددونوں بڑی پارٹیوں کے قائدین ان میں سے کسی ایک کے انتخابات میں احتیاط یا گریز کرسکتے ہیں ۔
نگران حکمرانوں سے ہمارے عوام کو زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ اگر تو وہ واقعی نوے روز کے لئے آرہے ہیں تو ان کے ابتدائی بیس روز تو خوشامدی پارٹیوں اور آخری بیس روز الوداعی اجلاسوں میں گزر جائیں گے۔ باقی پچاس دن میں وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں نہ تو کرپشن، نہ انرجی کا بحران، نہ کوئی اور مسئلہ حل نہیں ہوسکتا البتہ ان کے حل کیلئے کوئی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے۔ نگران حکمرانوں کو ہمارے نزدیک صرف یہ کرنا چاہئے کہ وہ ملک میں رول آف لاء اور معاشی انصاف کے لئے کوئی رہنما اصول قوم کو تحفہ دیدیں۔ اس سے گورننس سمیت تمام مسائل جب حل ہوں گے تو اس سے معاشی سرگرمیوں میں نہ صرف تیزی آئے گی بلکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس وقت یہی دو بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے سیاسی نظام سے لوگ بری طرح تنگ آچکے ہیں مگر وہ اس سے آگے کچھ نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ ہمارے جاگیردار انہ نظام اور سوچ کی وجہ سے جتنے مرضی آزادانہ انتخابات ہوجائیں فیصلہ تو دیہائی علاقوں میں ”ٹرالی ووٹرز نے ہی کرنا ہے، جن کو علاقے کا وڈیرہ یا ایس ایچ او کہے گا،(یہ روایتی جملہ کے طور پر ایس ایچ او لکھا جارہا ہے) جبکہ اربن ایریا کا ووٹر ذرا احتیاط ہی سے پولنگ بوتھ پر جاتا ہے“ اس حوالے سے پارلیمنٹ میں اسی فیصد یا اس سے زائد روایتی خاندان اور افراد ہی نظر آئیں گے لیکن اگر نگران حکمران رول آف لاء اور معاشی انصاف کیلئے کچھ عملی اقدامات کرجاتے ہیں تو پھر کئی خاندان اور افراد مختلف قوانین اور ضابطوں کی وجہ سے الیکشن سے دور ہوسکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کو بھرپور سپورٹ فراہم کرنے کی ضرورت ہے آئندہ انتخابات میں یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ پی پی پی سندھ کارڈ ضرور استعمال کریگی۔ یہ بجا ہے مگر پنجاب میں ”میٹروکارڈ“ کو استعمال کیا جائیگا جسے پاکستان میں جدید سفری سہولتوں کا ذریعہ بنایا جارہا ہے۔ نواز شریف فیملی نے1998ء میں بڑی ضد اور ہمت کرکے موٹر وے بنائی تھی اور اب اس خاندان کے رکن وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اس طریقے سے ”میٹرو بس“ چلائی ہے۔ اس وقت تو موٹر وے بناتے وقت بطور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ”وفاق“ کے تمام وسائل استعمال کئے تھے لیکن اب کی بار پنجاب حکومت نے وفاق پر انحصار کی بجائے پنجاب ہی کے وسائل سے یہ منصوبہ 30ارب روپے میں مکمل کیا ہے۔ اس کی لاگت پر بے پناہ سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا جواب کسی نہ کسی دن ضرور سامنے آئیگا کہ این ای سی اور ایکنک کی منظوری کے بغیر یہ سب کام کیسے مکمل کئے گئے۔ وفاقی حکومت تو اس حوالے سے کہتی ہے کہ یہ سب ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا کمال ہے کہ صوبوں کو150ارب روپے سے زائد کے وسائل دئیے گئے ۔ چلتے چلتے میٹرو بس کے حوالے سے ایک نشست میں دو اہم شخصیات کے درمیان ہونے والی بات چیت کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے موٹر وے بنائی اور پھر دس سال کیلئے جدہ چلے گئے۔ اب میاں شہباز شریف نے (عملاً میاں نواز شریف کی رضامندی سے) میٹرو بس لاہور میں چلائی ہے تو اب وہ کہاں جائینگے۔ اس کا جواب اس محفل میں یہ ملا کہ ہوسکتا ہے اب وہ اسلام آباد چلے جائیں، جس کی انہیں خواہش بھی ہے اور امریکہ بھی شاید ہی چاہتا ہے۔
تازہ ترین