• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلم کمیونٹی کو متحد ہونا ہوگا، باش قریشی

بریڈفورڈ(عبید الرحمٰن مغل)ڈنمارک کے معروف پاکستانی سماجی رہنما سات زبانوں پر مہارت کے حامل باش قریشی کے ساتھ ایک مذاکرے کا اہتمام کیو ای ڈی کی جانب سے کیا گیا جس میں کمیونٹی کے وکلاء ، ڈاکٹروں، انجینئرز ، اساتذہ سوشل ورکرز اور اکائونٹیٹس نے شرکت کی۔مذاکرے کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر علی نے کہا کہ وہ برطانیہ میں پاکستانیوں اور ایشیائی افراد کے لئے 28سال سے کام کر رہے ہیں مساوات اور انصاف کے لئے کام کرتے ہوئے 36 ہزار لوگوں کی مدد کرچکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لئے جاری اپنے پروجیکٹ کی بھی تفصیلات پیش کیں۔ باش قریشی نے کہا کہ یورپ میں تعصب بڑھ رہا ہے مسلم کمیونٹی کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ رہی ہیں، ان واقعات میں 9/11کے بعد اضافہ ہوا ہے۔ ہم دنیا کے یورپ کے دوسرے بڑے مذہب اسلام کے لئے یہودیوں جیسے مساوی حقوق چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں پچھلے 35سال سے فلاحی کام کررہا ہوں۔ ڈنمارک میں اچھی بات یہ ہے کہ وہاں پاکستانی کمیونٹی اقلیتوں میں سب بہتر کمیونٹی ہیں۔ تاہم برطانیہ میں یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ یہاں پاکستانی سب سے پیچھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی اداروں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اسلام کو ریفارم نہ کریں مسلمانوں کو کریں۔ تعصب ہمیں ہمارے بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ اگر ہم تعصب کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں اور بالخصوص نوجوانوں کو کمیونٹی کے ساتھ انگیج ہونا ہوگا۔ میڈیا مانیٹرنگ فائٹ بیک کے لئے بہت اہم ہے۔ میڈیا کو مانیٹر کریں یہ آپ کو فیکٹ دیتا ہے۔ یورپ کی چھ فیصد مسلم آبادی کے لئے تیس فیصد سے زائد کوریج ہے مگر افسوس کہ اس میں ستر فیصد کے قریب منفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم کمیونٹی فیڈ بیک نہیں دیتی جس کے باعث ان کے خلاف لکھنے والا میڈیا کمیونٹی کے ردعمل اور جذبات کو محسوس نہیں کرسکتا۔باش قریشی نے کہا کہ ہمیں بلڈنگ الائسنسز یعنی شراکت قائم کرنا ہوگی دیگر مذاہب کے ساتھ خاص طور پر یہودیوں کے ساتھ، جن کے پاس طاقت ہے اور اسی لئے یورپ کے قوانین یہودیوں کو زیادہ تحفظ دیتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اب یورپ کے ممالک ہمارے گھر ہیں اس بات پر بحث کریں اور اپنے لوگوں کو سمجھائیں یہ ممالک ہمارا گھر ہے یہی حقیقت ہے۔انہوں نے بتایا کہ مسلم مخالف تنظیموں کو خفیہ ہاتھ متحد رکھتا ہے اور فنڈنگ کرتا ہے جن میں زائنسٹ بھی شامل ہیں ان کا کہنا تھا کہ نسل پرست بہت آرگنائزڈ ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ڈنمارک میں 138مسجدیں ہیں مگر ایک بھی کمیونٹی سینٹر نہیں ہے۔ اس لحاظ سے گوکہ برطانیہ بہتر ہے تاہم مزید بہتری کی گنجائش ہے۔ ڈنمارک میں ہمارے بچوں کی کارکردگی شاندار ہے اور اس ماڈل پر برطانیہ کو بھی عمل کی ضرورت ہے۔ ڈینش بچے 61فیصد جبکہ مسلم منارٹی 64فیصد بچے اعلی تعلیم میں جارہے ہیں یہ بات ہمارے لئے باعث اطمینان ہے ۔ باش قریشی نے بتایا کہ ملازمتوں میں مسلم کے ساتھ زبردست تعصب ڈنمارک میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے مسلم فلاحی تنظیمیں آپس میں نیٹ ورکنگ کریں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھیں اور یقین رکھیں کہ فلاحی تنظیم کے عہدیداران کو میڈیا سنجیدہ لیتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مسلم تنظیموں کی پی آر بہت کمزور ہے۔ باش قریشی نے کہا کہ یورپ میں پاکستانی سیاسی جماعتیں ہماری توجہ بطور کمیونٹی تقسیم کرنے کا سبب بنتی ہیں ان تنظیموں کی وجہ سے کمیونٹی کا فوکس کمزور ہوتا ہے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اپنے بچوں کو مادری زبان اور کلچر سے دور رکھنے والے لوگ بہت جلد اپنے ہی گھر وں میں اجنبی ہوجائیں گے اپنی مادری اور قومی زبان اپنے گھروں میں رائج کریں۔انہوں نے مشورہ دیا کہ مساجد میں مقامی امام رکھیں جو کلچر کو سمجھتے ہوں باش نے بتایا کہ ترکی مذہب اور مسلم اداروں کومنظم اور مربوط اندازسے منظم کرتا ہے۔ یورپ کے مسلمان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسکارف اور داڑھی اہم ہے مگر اعلیٰ تعلیم بھی بہت اہم ہے۔ اسلامی جماعتیں فرقہ واریت اور باہمی تعصب سے بچیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ڈنمارک میں دس ہزار ڈینش برطانوی شہریت کے حامل ہیں اور ممکنہ طور پر بریگزیٹ کے بعد پاکستانیوں کو بہت مسئلہ ہوگا ۔

تازہ ترین