• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کو اسلام آباد میں ’’کامیاب جوان پروگرام‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 14ماہ میں بڑا مسئلہ یہ سامنے آیا کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، ٹیکس جمع نہیں ہوگا تو ملک کیسے چلے گا، بٹن دبانے سے تبدیلی نہیں آتی، ریاستِ مدینہ چند دنوں میں نہیں بنی تھی۔ کامیاب جوان پروگرام کے تحت ملک بھر کے 10لاکھ نوجوانوں کو میرٹ پر 100ارب روپے کے قرضے دیئے جائیں گے، 25فیصد قرضے خواتین کیلئے ہوں گے۔ نوجوانوں کو 10ہزار روپے سے 50لاکھ تک قرض مل سکے گا، ایک لاکھ تک کا قرضہ بلاسود دیا جائے گا۔ مدارس میں 500اسکلز لیبارٹریز بنائی جائیں گی، ایک لاکھ نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کی تربیت دی جائے گی۔ وطن عزیز اور قوم کیلئے کیا گیا کوئی بھی کام قابلِ ستائش ہے، خاص طور پر نوجوانوں کیلئے کہ جن کی اکثریت بیروزگاری کے باعث بددلی کا شکار ہو رہی ہے۔ حکومت کا اقدام احسن ہے تاہم اس ضمن میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ اول یہ کہ ملک بھر میں مارکیٹ مندی کا شکار ہے، کاروبار ٹھپ ہے، تاجر گروپ شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کر رہے ہیں تو نوجوان قرض لیکر کون سا کاروبار کریں گے؟ دوسری یہ کہ نوجوانوں کی اکثریت ہنرمند نہیں اور جس کو کوئی ہنر نہیں آتا وہ قرض لیکر بھی کہاں قسمت آزمائی کرے گا؟ ضروری ہے کہ حکومت کاروبار کیلئے سازگار ماحول پیدا کرے، تاجروں کے تحفظات پر ان سے بات کرے اور کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالے کہ کاروبار چلیں۔ کاروباری سرگرمیوں کا انجماد معیشت کیلئے سمِ قاتل سے کم نہیں۔ اس کے بعد بھی قرضہ لینے والے نوجوانوں کو رہنمائی کی ضرورت پڑے گی کہ وہ کس طرح باعزت طریقے سے روزی کما سکتے ہیں۔ حکومت کو رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دینا ہوگا پھر قرضوں کے اجرا کا طریقہ بھی آسان بنایا جائے تاکہ میرٹ پر مستحق نوجوانوں کو کئی کئی دفاتر کے دھکے کھائے بغیر قرضے مل جائیں۔ ملائیشیا کے مسیحا مہاتیر محمد نے پاکستان کو دو تجاویز دی تھیں کہ نوجوانوں کیلئے 5سال تک انجینئرنگ کی تعلیم مفت کر دی جائے اور 5سال کیلئے سمال انڈسٹریز کیلئے چھوٹے قرضے جاری کئے جائیں۔ حکومت نے نوجوانوں پر توجہ مرکوز کی ہے تو یہ تجاویز مشعل راہ بنائی جا سکتی ہیں۔ ہمارے نوجوان ہنرمند ہو جائیں اور چھوٹی انڈسٹری پھلے پھولے تو ہماری معیشت کے استحکام کی راہ میں کوئی شے حائل نہ ہو سکے گی۔ کوئی شک نہیں کہ قومیں راتوں رات بام عروج پر نہیں پہنچا کرتیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس کیلئے صحیح سمت میں نیک نیتی سے عمل پیرا ہونا لازم ہے، لہٰذا حکومت اور قوم کو اپنا اپنا فریضہ بحسن وخوبی سرانجام دینا ہو گا۔ ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں گورنر اسٹیٹ بینک کا بیان بھی توجہ طلب ہے کہ معاشی سست روی سے خدشات پیدا ہو رہے ہیں، مہنگائی چند ماہ میں کم ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان کو افراطِ زر کی شرح کم کرنے کے ساتھ سست ہوتی معیشت کے خطرے سے نمٹنا ہوگا، آئی ایم ایف کے نہ ختم ہونے والے چکروں سے بچنے کیلئے پاکستان کو اپنی بچتوں کی شرح میں اضافہ کرنا ہوگا۔ افراطِ زر اور معیشت کی سست روی کا علاج سوائے کاروباری و اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے اور کچھ نہیں، زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافے سے ہی افراطِ زر اور مہنگائی کی راہ روکی جا سکتی ہے، علاوہ ازیں مہاتیر محمد کی تجاویز کے ساتھ ساتھ عوام کے ملکی مصنوعات پر انحصار، برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ہمیں انہی خطوط پر عمل پیرا ہو کر خود کفالت کی منزل مل سکتی ہے، اس ضمن میں حکومتی اقدامات تشفی آمیز ہیں، ضرورت ان پر سختی اور نیک نیتی سے کاربند رہنے کی ہے۔

تازہ ترین