• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسمگلنگ سے ملکی تاریخ کے 72برسوں میں اقتصادی شعبے کو جس قدر نقصان پہنچا ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ آج قومی آمدنی کا ایک کثیر حصہ اس طریقے سے پروان چڑھنے والی غیر قانونی معیشت کی نذر ہو رہا ہے۔ رشوت، بدعنوانی، اقربا پروری، منی لانڈرنگ، پسند ناپسند کے تقرر و تبادلے اسی کا نتیجہ ہیں۔ اس رجحان سے ملکی برآمدات کم و بیش چالیس سال سے جمود کا شکار ہیں اور اس سے وابستہ بیشتر صنعتیں تباہ ہو چکی ہیں، لاکھوں افراد بیروزگار ہیں اور اسمگلنگ کا سامان ملک میں کھلے عام فروخت ہو رہا ہے جس سے حاصل ہونے والے ٹیکس رشوت کی شکل میں رشوت خور اہلکاروں کی تجوریوں میں جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس صورتحال کا بجا طور پر ادراک کرتے ہوئے قومی حکمت عملی کی منظوری دی ہے جس میں محکمہ کسٹم ہراول دستے کا کردار ادا کرے گا جبکہ اس ذمہ داری سے وابستہ جملہ ادارے معاونت کے پابند ہوں گے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت جمعرات کے روز منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں سرحدی علاقوں میں خوشحالی لانے کیلئے بارڈر مارکیٹیں قائم کی جائیں گی اور نوجوان پروگرام کے توسط سے متعلقہ افراد کی استعدادِ کار میں اضافے کئے جائیں گے، ٹھوس معاشی منصوبہ بندی کے تحت وہاں ٹیکس فری صنعتی زون قائم کئے جائیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرحدی راستوں سے ہونے والی اسمگلنگ سے قومی معیشت کو ہر سال 11سو ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے۔ متذکرہ اجلاس میں سنٹرل ڈیٹا بینک اور خود مختار کسٹم اتھارٹی کے قیام کی دی جانے والی منظوری خوش آئند اقدامات ہیں تاہم وہ بنیادی وجوہ بھی جاننا ضروری ہیں جن کے باعث ملک میں اسمگلنگ کلچر کو فروغ ملا۔ خود مختار کسٹم اتھارٹی کے قیام کے بعد ضروری ہوگا کہ اس کی ذیل میں آنے والے قوانین پر بھی نظر ثانی کی جائے اور عالمی تناظر میں سزائوں کا تعین کیا جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین