• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی سیکرٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں میں خصوصی اضافے پر غور

انصار عباسی

اسلام آباد :…وفاقی حکومت سیکرٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں میں خصوصی اضافے کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ بیورو کریٹک ذرائع کے مطابق مجوزہ اضافہ ایک بنیادی تنخواہ کے مساوی ہو گا جو وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کے گریڈ1سے گریڈ22تک کے ملازمین پر لاگو ہو گا۔

اگر تنخواہوں میں مذکورہ اضافہ منظور اور لاگو ہو گیا تو وفاقی سیکرٹریٹ ملازمین کے لئے تنخواہوں کے بل میں4ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا تاہم جیسا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہوا اس سے امتیاز میں اضافہ ہو گا کیونکہ بیوروکریسی میں بااثر طبقات کو فائدہ پہنچے گا جنہیں یکے بعد دیگرے تنخواہوں میں اضافوں سے نوازا جا رہا ہے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گریڈ17سے گریڈ22تک کے ملازمین کے منتخب طبقات کی تنخواہوں میں150فیصد تک اضافہ ہوا۔ وفاقی سیکرٹریٹ کی سطح پر تجویز یہ ہے کہ اگر سینئرز کی تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں تو گریڈ1سے16تک کے ملازمین کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ وفاقی سیکرٹریٹ کے ملازمین تنخواہوں میں خصوصی اضافے کی مہم کا محرک پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں کے منتخب ملازمین کے لئے تلافی کے غیرمعمولی پیکیجز بنے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تنخواہوں اور مراعات کے پیکیجز وفاقی سیکرٹریٹ سے کہیں زیادہ پرکشش ہیں۔

یہ عجیب و غریب بگاڑ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ایگزیکٹو الائونس کے نام پر بیوروکریسی کے چند منتخب طبقات کی تنخواہوں میں150فیصد اضافے سے پیدا ہوا۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت نے صوبائی اسمبلی سے رجوع کئے بغیر رواں بنیادی تنخواہوں میں150فیصد تک اضافہ کیا۔ اس انتہائی امتیازی اضافے کا تعلق ایگزیکٹو الائونس کے نام پر تقریباً1700منتخب عہدوں سے ہے۔

مستفید ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق سابق ڈی ایم جی (حالیہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس) اور سابق پی سی ایس (موجودہ پراوینشل مینجمنٹ سروس) سے ہے۔ اس حیرت انگیز اضافے کی منظوری کا نوٹیفکیشن پنجاب اسمبلی سے صوبائی بجٹ کی منظوری کے چند ہفتوں بعد جاری ہو گیا۔ جو عہدے ایگزیکٹو الائونس کے مستحق قرار دیئے گئے ان میں صوبائی، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز، ارکان ریونیو بورڈ، ایڈیشنل سیکرٹریز، سیکشن افسران، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، ریونیو حکام اور اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹس شامل ہیں تاہم گریڈ17سے نیچے کے افسران کو تنخواہوں میں اضافہ نہیں دیا گیا۔

خیبر پختونخوا حکومت نے گزشتہ سال ایگزیکٹو الائونس کے نام پر تنخواہوں میں150فیصد اضافہ کیا۔ اس سے مستفید ہونے والے پی اے ایس اور پی سی ایس ملازمین نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، ایف بی آر، ایف آئی اے اور پولیس وغیرہ میں سرکاری ملازمین جب زیادہ تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن ان پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔

سرکاری ملازمین کے خصوصی گروپوں کو انتظامی احکامات جاری کر کے گاہے بگاہے تنخواہوں میں خصوصی اضافوں سے نوازا جاتا رہا ہے جس سے پے اسکیل سسٹم بگڑ گیا جو 1973ء میں سول بیورو کریسی میں انتظامی اصلاحات کے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد بارہا ایگزیکٹو کی جانب سے مداخلت نے مضحکہ خیز استثنیٰ کو جنم دیا جیسا کہ آج گریڈ22کا افسر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گریڈ20کے افسر سے بھی کم تنخواہ پا رہا ہے۔

ایک ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری کے مطابق 1999ء کے بعد سے تنخواہوں اور الائونسز کو مضحکہ خیز طور پر مسخ کیا گیا۔ موجودہ انتظام کے تحت جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ میں ایک نائب قاصد تین سے چار ماہانہ تنخواہوں کے مساوی مشاہرہ لے رہا ہے۔

بعدازاں سرکاری ملازمت میں مختلف طبقات اپنے اثرورسوخ اور مواقع کی بنیاد پر انتظامی احکامات کے ذریعے تنخواہوں میں زائد اضافہ لینے لگے۔

ذرائع کے مطابق تنخواہوں کا نظام اور ڈھانچہ بکھرکر رہ گیا ہے۔

تازہ ترین