• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی برس قبل عوامی شاعر حبیب جالب نے ایک نظم پڑھی تھی جس کا ایک شعر ہر دور کے حکمرانوں اور بیورو کریٹس پر پوری طرح فٹ نظر آتا ہے۔

سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں

علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کرتے ہیں

حبیب جالب نے یہ شعر یقیناً کسی ایسے دور کے حاکم کے بارے میں کہا ہوگا جس نے عوام کو بہت سبز باغ دکھائے او اس کا زور صرف تقریروں پر رہا۔ راز کو راز ہی رہنے دینا چاہئے لیکن اس شعر کو ادا کرنے کے بعد انہوں نے مشاعرے میں یہ بات کہی کہ جب بھی وہ تقریر کرتے ہیں اس کے بعد مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ آج بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ اِدھر وزیراعظم تقریر کرتے ہیں، اُدھر مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔

پی ٹی آئی نے ایسے خواب دکھائے تھے کہ قوم نے سمجھا کہ یہ حکومت آئی تو اگلے دن سارے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ ہر نوجوان کے پاس روزگار ہو گا، عوام کو سستا انصاف اور اسپتالوں میں علاج، ادویات مفت ملیں گی، مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی جبکہ آج ہمارا ملک مسائل کا ایک گڑھ بن جا چکا ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ڈینگی کے خلاف تقریریں کر رہی ہیں مگر ہر روز بیس پچیس افراد ڈینگی وائرس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں صرف چوبیس گھنٹے کے دوران 170نئے مریض ڈینگی بخار میں مبتلا ہو گئے۔ 1200مزید مقامات سے لاروا برآمد ہو چکا ہے۔ اس سال پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے ایک بھی عوام کی آگہی کے لئے سیمینار منعقد نہیں کرایا حالانکہ ڈاکٹر محمد اجمل خاں جب تک ادارے کے سربراہ رہے، اکثر شہروں میں عوام کو ڈینگی سے بچانے کے لئے بھرپور سیمینار منعقد کراتے جس کی وجہ سے ڈینگی کا ایک بھی کیس نہیں ہوا۔ سر گنگا رام اسپتال میں بڑی تعداد میں ڈینگی لاروا برآمد ہوا، پتا نہیں اور کتنے سرکاری اسپتالوں سے ڈینگی لاروا برآمد ہونا ہے۔

حال ہی میں کراچی کی ایک رپورٹ کے مطابق گٹکا کھانے سے ہر 300میں سے 100افراد کو منہ کا سرطان ہو جاتا ہے۔ نوجوانوں میں گٹکا اور مین پوری کھانے سے منہ کا کینسر بڑھ رہا ہے، دوسری طرف سندھ حکومت صرف تقریریں کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو ہر روز کوئی نیا بیان دے دیتے ہیں حالانکہ پچھلے تیس برس سے سندھ میں پی پی کی حکومت ہے، پھر بھی پورا سندھ مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ کراچی میں کانگو وائرس اور نگلیریا سے لوگ مر رہے ہیں مگر مجال ہے سندھ کے وزیر صحت نے کوئی اقدام کیا ہو۔ فقط تقریریں ہی تقریریں ہیں۔

پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں ایک مرتبہ پھر وائی ڈی اے کے کہنے پر ہڑتال جاری ہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ نے تاحال اس حوالے سے کچھ نہیں کیا۔ بات وہی کہ عمران خان تقریر بہت اچھی کرتے ہیں اور عملاً کیا ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ جب ڈاکٹرز، فوج اور پولیس کا شمار لازمی سروس میں ہوتا ہے تو پھر ڈاکٹرز کس طرح ہڑتال کر سکتے ہیں؟ کس طرح وہ مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ پچھلے کئی دن سے مریض سرکاری اسپتالوں میں دھکے کھا رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت میں سے کسی نے ڈاکٹروں کی ہڑتال پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ مریض رل گئے۔ صرف تقریریں جاری ہیں۔

پچھلے 72برس میں پاکستان کا ہر اچھا سرکاری تعلیمی ادارہ تباہ و برباد ہو گیا۔ انگریزوں نے گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول اور جونیئر ماڈل اسکول لوئر مال قائم کئے۔ آج سے100برس قبل سینٹرل ماڈل اسکول میں داخلہ ایسے تھا جیسے آپ کو قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔ یہ اسکول 136برس پرانا ہے۔ اگر ہم اس اسکول میں زیر تعلیم معروف لوگوں کی لسٹ لکھنا شروع کریں تو دفتر کے دفتر خرچ ہو جائیں۔ اس اسکول کا شمار مرحوم جی این بٹ کے زمانے تک پاکستان کے بہترین اسکولوں میں ہوتا رہا۔ 70کی دہائی کے بعد اس اسکول کی تباہی شروع ہوئی اور آج یہ عالم ہے کہ اس اسکول میں کوئی داخلہ لینا پسند نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن معروف لوگوں نے اس اسکول سے تعلیم حاصل کی انہوں نے اپنے بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرا دیئے اور یوں اس اسکول کا معیار گرنا شروع ہو گیا۔ اس تاریخی اسکول سے جسٹس جاوید اقبال، چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری شجاعت حسین، جسٹس خلیل رمدے، ایئر مارشل طارق بٹ، ملک معراج خالد، جسٹس نسیم حسن شاہ، مولانا طارق جمیل، ڈاکٹر ممتاز حسن، ڈاکٹر نفیس ناگی، ڈاکٹر غیاث النبی طیب، ڈاکٹر ساجد نثار، ڈاکٹر فرید احمد خاں سمیت کئی نامور لوگوں نے تعلیم حاصل کی۔ وہ لاہور جس میں کئی نامور اسکول ہوا کرتے تھے، آج اس کے تعلیمی اداروں کا معیار پست ہو چکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر ان تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے یہ نامور لوگ اپنے بچوں کو بھی یہاں داخل کراتے تو یقیناً ان اسکولوں کا معیار برقرار رہتا۔ ہم پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس سے کہیں گے کہ وہ تمام قدیم اسکولوں کا معیار بہتر بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کریں، وہ اسکولوں کی بہتری کے لئے بہت کام بھی کر رہے ہیں۔ اسکولوں میں پی ایچ ڈی اساتذہ لائیں، اردو زبان کی ترقی و فروغ کے لئے کام کریں۔ کسی زمانے میں پاکستان کی 70فیصد بیورو کریسی، فوج اور 80فیصد نامور ڈاکٹرز کا تعلق انہی نامور اسکولوں سے تھا۔

حال ہی میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ذہنی دبائو کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کے نوجوان کے پاس فالتو اوقات میں اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ملک کے غیر یقینی حالات اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال بھی نوجوان نسل کو ذہنی دبائو میں مبتلا کر رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 60فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کے بہتر مستقبل کے لئے تاحال اس حکومت نے بھی کچھ نہیں کیا، بس؎

سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں

تازہ ترین