• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عکّاسی :اسرائیل انصاری

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ’’استاد باد شاہ نہیں،لیکن باد شاہ گرضرور ہوتا ہے۔‘‘اور کسی شاعر نے بھی کیا خُوب کہا کہ ؎’’جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک …ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں۔‘‘ بلا شبہ استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے۔درس و تدریس ایک ایسا مقدّس پیشہ ہے، جسے تمام پیشوں کی ماں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر شعبۂ زندگی کے ماہرین، اساتذہ ہی توتیار کرتے ہیں۔

اشفاق احمد صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ فرانس میں میرا چالان ہوگیا ، تو مَیں چالان جمع کروانے عدالت گیا۔ جب جج کو معلوم ہوا کہ سامنے کھڑا شخص ایک استاد ہے، تووہ اپنی کرسی سے کھڑا ہوگیا اور حیرت سے کہا ’’استاد عدالت میں…؟؟ ‘‘اُس کے بعدجج نے مجھے نہایت عزّت و احترام سے رخصت کیا۔‘‘ مہذّب قوموں کے یہی اطوار انہیں دنیا میں ممتاز کرتے ہیں۔بد قسمتی سے آج ہمارے مُلک اور نظامِ تعلیم کا جو حال ہے، اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ہم اپنے محسنوں کو وہ عزّت و احترام نہیں دیتے، جو اُن کا حق ہے۔

اس بات کاہمیں شدّت سے احساس تب ہوا، جب گزشتہ دنوں کیمبرج یونی وَرسٹی پریس، انگلینڈ کی جانب سے پاکستانی ٹیچر ، احمد سایہ کوسال 2019ء کے بہترین ٹیچر کےایوارڈسے نوازا گیا ، جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے پذیرائی کے نام پر اُنہیں صرف ایک ’’ٹویٹ‘‘ کیا گیا۔ 

بہر حال ، ہم نے وطنِ عزیز کا نام عالمی سطح پر بلند کرنے والے، احمد سایہ سے جنگ، سنڈے میگزین کے لیے ایک تفصیلی ملاقات کی، جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔ 

درس و تدریس محض پیشہ نہیں، انبیاءؑ کی سنت ہے
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق کراچی سے ہے۔والد کا اپنا کاروبار تھا (اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں) والدہ گھریلو خاتون ہیں۔ہم تین بھائی بہن ہیں۔ مَیں نے 2003ء میں جعفر پبلک اسکول سے او لیولز اور 2005ء میں فاؤنڈیشن پبلک اسکول سے اے لیولز کیا۔

بعد ازاں، 2007ء میں اے سی سی اے، 2008ء میں اوکسفورڈ بروکز یونی وَرسٹی سےاپلائیڈ اکاؤنٹنگ میںبی ایس سی (آنرز)اور 2011ء میں سی بی ایم سے ایم بی اے کیااور اب پی ایچ ڈی کا بھی ارادہ ہے، مگر وقت نہیں مل رہا، کیوں کہ مجھ پر ٹیچنگ کی بھاری ذمّے داری ہےاور کوشش کرتا ہوں کہ یہ ذمّے داری نبھانے میں کسی قِسم کی کوتاہی نہ ہو۔ میری پہلی کلاس صبح 7:30بجے شروع ہوتی ہے اور آخری کلاس رات 10:30 بجے تک ختم ہوتی ہے، تو اس دوران مَیں اپنی پڑھائی کے لیے وقت نہیں نکال پاتا۔

س: کیسے طالب علم تھے؟ او، اے لیولز میں کیا گریڈز آئے؟

ج: بچپن ہی سے ذہین تھا۔ تمام مضامین میں اچھے گریڈز آتے تھے، سوائے ریاضی کے۔ پتا نہیں کیوں، بس مجھے میتھس کا نام سُنتے ہی گھبراہٹ شروع ہو جاتی تھی، اسی وجہ سے میتھس میں پاسنگ مارکس ہی آتے تھےلیکن پھر مَیں نے ایک دن سوچا کہ اس طرح تو کام نہیں چلے گا۔ مجھے اپنی پڑھائی کے اخراجات بھی اُٹھانے ہیں، تو کسی بھی مضمون کے بُرے گریڈز میرے مجموعی رزلٹ پر اثر انداز ہوں گے۔ 

سو، مَیں نے ریاضی میں خُوب محنت شروع کردی، رات رات بھر جاگ کر پاسٹ پیپرز حل کرتا، کلاس کے وہ بچّے ،جو میری ہی طرح ریاضی میں کم زور تھے ،انہیں سمجھاناپڑھانا شروع کر دیا، کیوں کہ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ ’’The best way to learn is to teach‘‘تو مَیں نے اسی پر عمل کیا، جس سے میرے وِیک زونز ، اسٹرانگ زونز میں بدلنے لگے۔ 

دوسری اہم بات ایک ٹیچر کی ترغیب ہے۔در اصل میری زندگی میں ایک فیز ایسا بھی آیا، جب مَیں پڑھائی میں تھوڑا کم زور ہوگیا تھا،مگر پھراچانک کلاس میںسائنس کے ٹیسٹ میں میرے سب سے زیادہ نمبرز آگئے۔ ٹیچر نے پوری کلاس کے سامنے میری تعریف کی ، تو بس وہی تعریفی کلمات میرے لیے موٹی ویشنل اور ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے۔ 

مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ مَیں نے مزید محنت شروع کر دی، پھر یہی کوشش ہوتی کہ ہر کلاس میں میرا نام ٹاپرز میں ہو۔او لیولز میں میرے8 ، A's اور اے لیولز میں 4، A's آئے تھے۔جب کہ بی ایس سی اور ایم بی اے، فرسٹ کلاس ،فرسٹ ڈویژن سے کیا۔

س: درس و تدریس کے شعبے ہی کا انتخاب کیوں کیا؟

ج: مجھے ایسا لگتا ہے کہ درس و تدریس کے شعبے کا انتخاب مَیں نے نہیں، بلکہ اللہ نے میرے لیے کیا۔ مَیں آج سے نہیں بلکہ اُس وقت سے پڑھا رہا ہوں، جب مَیں نویں جماعت میں تھا۔ اتنی چھوٹی کلاس سے ٹیوشنز پڑھانے کی بنیادی وجہ اپنےتعلیمی اخراجات اُٹھانا تھا۔

مَیں جانتا تھا کہ اے لیولز اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کثیر رقم درکار ہوگی، لہٰذا سوچا ،کیوں نہ والد کا بوجھ کچھ کم کیا جائے۔ سو،درس و تدریس کے شعبے میںقدم رکھ دیا، لیکن جیسے جیسے میرا تعلیمی سفر آگے بڑھتا گیا ،مجھے شدّت سے یہ محسوس ہونے لگا کہ ٹیچنگ کوئی پروفیشن یا کام نہیں، ایک بہت بڑی ذمّے داری ہے۔ 

ہر شخص، استاد نہیں بن سکتا ۔استاد ’’بائے چانس نہیں ،بائے چوائس ‘‘ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اساتذہ تو بہت ہیں، لیکن بائے چوائس نہیں، بائے چانس ہیں۔تو مَیں نے اُسی وقت یہ ٹھان لیا تھا کہ مَیں درس و تدریس کی فیلڈ میں اپنی خوشی سے جاؤں گا۔

س: آپ کو یہ احساس کیوں ہوا کہ اکثر لوگ بائے چانس ٹیچر بنتے ہیں ، کیاکوئی خاص واقعہ پیش آیا تھا؟

ج: زمانۂ طالب علمی ہی سے یہ میرا مشاہدہ ہے کہ بہت سے لوگ اس شعبے میں اپنی خوشی سے نہیں ، مجبوراً آتے ہیںاور نظامِ تعلیم کی بد حالی وفرسودگی کی ایک بڑی وجہ ایسے ہی لوگ ہیں۔ درس و تدریس محض ایک پیشہ نہیں، یہ نبیوں کی سنّت ہے،تو جو اساتذہ بہ خوشی اور نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے کے لیےدرس و تدریس کا شعبہ اپناتے ہیں ، اُن کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والے بچّوں کا انداز، قابلیت ہی الگ ہوتی ہے ۔

درس و تدریس محض پیشہ نہیں، انبیاءؑ کی سنت ہے
ڈائریکٹر، کیمبرج لرننگ فار اسکولز سے شیلڈ وصول کرتے ہوئے

س: وقت بدلنے، ضروریات بڑھنے کے ساتھ انسان کی سوچ میں تبدیلی آہی جاتی ہے، اے سی سی اے اور یم بی اے کے بعدآپ بھی کارپوریٹ سیکٹر میں جا سکتے تھے، مگر نہیں گئے۔ کیوں؟

ج: جی بالکل تبدیلی آتی ہے اور میرے پاس بھی بہت سے بہتر آپشنز موجود تھے،لیکن مَیں نے ٹیچنگ کمیونٹی میں ایک خلامحسوس کیا، دوسری بات یہ کہ مُلک کے حالات میرے سامنے تھے۔ مَیں کوئی فارن ریٹرن نہیں ،اسی مُلک کا بیٹا ہوں۔میرا بچپن اسی شہر کے گلی کُوچوں میں گزرا ہے۔ 

مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ مُلک کے معاشی و سماجی سُدھار کے لیے اب باتوں کی نہیں ،عمل کی ضرورت ہے۔لیکن ایک عام اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ ہاں البتہ اگر کارواں تیار کرنا ہے، تو اُس کے لیے ایک اچھے استاد کا ہونا بہت ضروری ہے کہ استاد کسی بھی طالب علم کا رول ماڈل ہوتا ہے۔ تب ہی تو اُسے روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے۔ یوں بھی والدین صرف اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں ، جب کہ اساتذہ پورے معاشرے کی تربیت کرتے ہیں۔ 

مَیں تو جب پڑھا رہا ہوتا ہوں، توتعلیم دینے کے ساتھ طلبہ کی ذہن سازی، کردار سازی بھی کرتارہتا ہوں۔ مَیں اپنے ہر شاگرد سے یہی کہتا ہوں کہ اس وطن کو تمہاری ضرورت ہےکہ تعلیم یافتہ نوجوان ہی اس پاک سر زمین کو ترقّی کی راہ پر گام زن کر سکتے ہیں۔اور میری خواہش ہے کہ مُلک کے ہر بچّے کا دل وطن کی محبّت سے سرشار ہو۔

درس و تدریس محض پیشہ نہیں، انبیاءؑ کی سنت ہے
دولتِ علم لُٹاتے ہوئے…

س: ہماری نسلِ نو اس مُلک کے مستقبل کے حوالے سے کیا سوچتی ہے؟

ج: نوجوانوں کو ہم جس زاویے سے سوچنے پہ مجبور کریں گے، وہ اُسی طرح سوچیں گے۔ اگر ہم اُن کے سامنےمُلک کی برائیاں ہی کرتے رہیں گے، تو اُن کے دل ودماغ میں بھی منفی باتیں ہی گھر کریں گی کہ یہاں بہت مسائل ہیں، یہ مُلک آگے نہیں بڑھ سکتا۔

لیکن اگر ہم انہیں مسائل میں رہتے ہوئے مثبت پہلو دکھائیں، مشکل حالات سے لڑنے کا حوصلہ دیں اور یہ باور کروائیں کہ سچّی محنت ، لگن اور مستقل مزاجی سے ہم کسی بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں، تو وہ نا اُمید نہیں ہوں گے۔ 

ہمیں نسلِ نو کے لیے رول ماڈل بننا ہے۔ ہر کوئی چِلّا رہا کہ مُلک میں گندگی ہے، جگہ جگہ کچرا پھیلا ہوا ہے، مگر نہ ہم سڑکوں ، گلیوں میں کچرا پھینکنے سے باز آرہے ہیں اور نہ کبھی اسے صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلا شبہ آج مُلک مشکلات میں گھِراہوا ہے،لیکن یہ ہماری کوششوں سے ترقّی یافتہ ممالک میں بھی شامل ہو سکتا ہے۔

س: ’’موسٹ ڈیڈی کیٹڈ ٹیچر ایوارڈ ‘‘سے متعلق کچھ بتائیں۔

ج: کیمبرج یونی وَرسٹی پریس، انگلینڈ نے پچھلے سال اکتوبر میں دنیا بھر کے طلبہ کو دعوت دی کہ وہ اپنے ’’most dedicated teacher‘‘ کو نام زَد کریں، اُن کے بارے میں لکھ کر بھیجیں۔ اس حوالے سے اُنہیں 4000اینٹریز موصول ہوئیں، تواُن کے پینل آف ججز نے اینٹریز کے ذریعے بھیجے جانے والے اساتذہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں، تحقیق کی اورابتدائی طور پر 50اساتذہ کو شارٹ لِسٹ کیا۔ 

پھر 50میں سے 6اساتذہ (پاکستان، بھارت، ملائیشیا، آسٹریلیا، فلپائن اور سری لنکاسے) شارٹ لسٹ کیے گئے۔ اُس کے بعد آخری مرحلے میں کیمبرج یونی وَرسٹی نے ہم چھے اساتذہ کے لیےدنیا بھر سے پبلک ووٹنگ کروائی ، جس میں مجھے 80فی صد اور باقی پانچوں امیدواروں کو ملا کر 20فی صد ووٹس ملے۔ رواں سال ستمبر میں مجھے برطانیہ بلایا گیا ، جہاں ایوارڈ کی تقریب ہوئی ، مگرمیرے لیے ایوارڈ سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مجھے اپنے مُلک کی نمایندگی کرنے اور سبز ہلالی پرچم کیمبرج ، لندن میں لہرانے کا موقع ملا۔ 

جب مَیں تقریب میں شرکت کے لیے کیمبرج یونی وَرسٹی گیا ، تو وہاں کئی لوگوں نے کہا کہ آپ سے ملنے سے پہلے تک پاکستان کے حوالے سے ہمارا نظریہ مختلف تھا مگر اب ہم اُس کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ 

مَیں نے انہیں بتایا کہ’’ بلا شبہ پاکستان پردہشت گرد ی کا لیبل لگاہے۔ ہم شرحِ خواندگی کے لحاظ سے 220ممالک میں 180ویںنمبر پر آتے ہیں،ہمارے 25 ملین بچّے اسکول نہیں جاتے، لیکن ’’موسٹ ڈیڈی کیٹڈٹیچر ایوارڈ‘ ‘ پاکستان ہی نے جیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ویسا ہر گز نہیں ، جیسا اُسے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ 

ہم دہشت گرد نہیں، دہشت گردی کا شکارہیں۔ ہمارے بچّے انتہائی قابل، باصلاحیت ہیں،جو نامساعد حالات کے با وجود اپنے اپنے شعبوں میں آگے بڑھ کے نام کما رہے ہیں۔‘‘

س: شرحِ خواندگی میں اضافے کے لیےکیا کیا جا سکتا ہے؟

ج: دیکھیں، ہمارے جوڈھائی کروڑ بچّے اسکولوں سے باہر ہیں، سب سے پہلے توانہیں اسکولوں میں لانا ہوگا۔ اسی ضمن میں ایک عملی کاوش کے لیے آج سے 7،8 سال پہلے مَیں نے چند ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر مغل ہزارہ گوٹھ، کراچی میں ’’بِرج اسکول‘‘ کے نام سے ایک اسکول تعمیر کیا ، جس میں آج 220بچّے زیرِ تعلیم ہیں۔گر چہ ڈھائی کروڑ میں 220کوئی خاص بڑی تعداد نہیں، لیکن اگر یہی 220 بچّے کل کو مزید 220بچّوں کو پڑھائیں اور اسکولز کھولیں تو سوچیں ،ہمار ی شرحِ خواندگی کتنی بڑھ جائے گی۔ 

اس کے علاوہ مَیں آرٹی فیشل انٹیلی جینس(اے آئی) پر بھی کام کر رہا ہوں کہ کسی طرح کچھ ورچوئل اسکولز بنا دئیے جائیں کہ ڈھائی کروڑ بچّے اسکول تو نہیں جاتے، لیکن آج کل اسمارٹ فونز یا موبائل فونز تقریباً ہر کسی کی دسترس میں ہیں، تو یہ ور چوئل اسکول ہر وقت ایک فون میں ہو سکتا ہے۔ میری کوشش ہے کہ کسی طرح سیلولر کمپنیز کو آن بورڈ لوں تاکہ وہ اس پراجیکٹ میں میری کچھ مدد کر سکیں، تو اِن شاء اللہ کام یابی ضرور مقدّر بنے گی۔

س:کیا آپ ہمارے یہاںمیٹرک، انٹر میں پڑھائے جانےوالے نصاب سے مطمئن ہیں؟

ج: بد قسمتی سے ہمارے ہاں نصاب پر نظرِ ثانی نہیں کی جاتی۔ ابھی تھوڑے عرصے پہلے یہ مسئلہ ہائی لائٹ ہوا تھا کہ کمپیوٹر کورس بُک میں آج بھی بچّوں کو فلاپی ڈِسک اور اُن ونڈوز کے بارے میں پڑھایا جا رہا ہے، جو اب قابلِ استعمال ہی نہیں ۔ 

نصاب کو نئے سِرے سے تیار کرنا، ترتیب دینابے حد ضروری ہے۔ اگر ایسا نہیں کریں گے، تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ میٹرک اور انٹر بورڈز سے دوسری شکایت امتحانی نظام سے متعلق ہے، جب تک یہ نظام ٹھیک نہیں ہوگا، نظامِ تعلیم میں کبھی بہتری نہیں آسکتی۔

س: اکثر طلبہ شکایت کرتے ہیں کہ اساتذہ کا رویّہ ان کے ساتھ درست نہیں ہوتا یا خاصا سرد ہوتا ہے،تو ایسا کیوں؟

ج: مَیں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ہر بچّہ ، دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے سگے بہن ،بھائیوں یا پھر جڑواں بچّوں تک کا ذہن، صلاحیّتیںایک جیسی نہیں ہوتیں، تو کلاس فیلوز کا ذہن ایک جیسا کیسے ہو سکتاہے۔بالکل اسی طرح کچھ بچّے ایسے ہوتے ہیں، جنہیں سب کے سامنے ڈانٹ دیا جائے، تو ان کی کار کر دگی میں بہتری آجاتی ہے، جب کہ کچھ بچّوں کے ساتھ معاملہ بر عکس ہوتاہے۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف اقسام کے ان ’’پھولوں‘‘ کی آب یاری کیسے کی جائے، تو یہ کام اُن کے ’’مالی‘‘ کا ہے۔ یعنی ایک اچھا استاد بہ خوبی جانتا ہے کہ کون سے بچّے سے کس طرح کا برتاؤ رکھنا ہے۔ استاد در اصل ایک مالی ہوتا ہے، جس کے باغیچے میں طرح طرح کے پودے ہوتے ہیں، لیکن اگر ہر پودے کی الگ الگ اور صحیح نگہداشت نہ کی جائے، تو وہ سوکھ جاتاہے۔ایک استاد کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ کلاس میں موجود ہر طالبِ علم کی ذہنی اِستعدادکے مطابق اس کی ذہن سازی ، رہ نمائی کرے۔

س: نظامِ تعلیم میںبہتر ی کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

ج: نظامِ تعلیم کی خرابی کا کوئی ایک فرد یا ادارہ ذمّے دار نہیں ،اس خرابی کے چارذمّے داران ہیں۔ حکومت، والدین، اساتذہ اور طلبہ۔حکومت کو چاہیے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر کرے، والدین کو پابند کرے کہ وہ اپنے بچّوں کو باقاعدگی سےاسکول بھیجیں ، جب کہ ضرورت مند والدین کی کچھ مالی امداد بھی کی جائے، تاکہ وہ بچّوں کو اسکول بھیجنے پر مجبور ہوں۔ والدین اس طرح قصور وار ہیں کہ انہوں نےاپنے بچّوں کو جدید گیجٹس تھما دئیے ہیں، ان کی تعلیم و تربیت پر کوئی توجّہ نہیں۔

اساتذہ نے ٹیچنگ کو کمرشلائزڈ کر لیا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کام صرف نصاب مکمل کر وانا ہے، حالاں کہ ان کا کام بچّے کی کردار سازی بھی ہےاور رہی بات طلبہ کی، تومَیں نے خوددیکھا ہےٹیچر چاہے کتنی بھی کوشش کیوں نہ کرلے، کچھ طلبہ پڑھ کر ہی نہیں دیتے۔ اُن کا دھیان تعلیم کے سوا ہر چیز میں ہوتا ہے، تو اُن کا کیا کیا جائے۔

س: بچّے والدین سے متعلق کیسی شکایات کا اظہار کرتے ہیں؟

ج: آج کل بچّے سب سے زیادہ گِلہ یہ کرتے ہیں کہ والدین کے پاس اُن کے لیے وقت نہیں ۔ دوسری شکایت یہ کہ والدین اُن کی بات نہیں سمجھتے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ بچّے، والدین کی عزّت نہ کریں یا ان کی بات نہ مانیں، والدین کی فرماں برداری تو اوّلین فرض ہے۔ 

تاہم، والدین کو بھی چاہیے کہ بچّے کی ذہنی صلاحیتوں، شوق کو دیکھتے ہوئے اُسے اُس کی پسند کےشعبے کا انتخاب کرنے دیں۔ بلا وجہ اپنی خواہشات کا بوجھ اُس کے کندھوں پر مت ڈالیں۔

س: گریڈز کی دوڑ نے طلبہ پر کس قسم کےاثرات مرتّب کیے ہیں؟

ج: پہلے بچّہ سیکھنے کے لیےپڑھتا تھا، اب صرف اچھے گریڈز کے لیے پڑھتا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ گریڈز کی اہمیت نہیں، پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گریڈز ہی سب کچھ نہیں۔ 

علم حاصل کرنے کا بنیادی مقصد کچھ نیا سیکھنا ہے، وہ آپ اپنی غلطیوں سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ طلبہ کا کام محنت کرنا ہے، انہوں نے محنت کی اور اچھے گریڈز آئے تو بہت اچھی بات ہے، محنت کے با وجود بھی اچھے گریڈز نہیں آئے تو ہمّت ہارنے کی ضرورت نہیں کہ محنت بہر حال کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

س: دنیا کے بہترین استاد کا ایوارڈ ملنے پر حکومت کی جانب سے بھی کوئی پذیرائی ہوئی؟

ج: جی،حکومت ِ پاکستان کی جانب سے ایک ٹویٹ آیا ہے۔لیکن مَیں نے یہ سوچ کر پڑھانا شروع نہیں کیا تھا کہ میری پذیرائی ہوگی، کوئی ایوارڈ ملے گااور مجھے حکومت سے کسی پذیرائی کی ضرورت یا خواہش بھی نہیں۔ میرے لیے فخر کی بات یہ ہے کہ مَیں نے ایسی سر زمین پر اپنے مُلک کا جھنڈا لہرایا، سبز ہلالی پرچم اوڑھ کرتصویریں کھنچوائیں، جہاں پاکستانی اپنی پہچان بتاتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ میرے لیے یہی اعزا زکافی ہے کہ میری وجہ سے میرے مُلک کا نام روشن ہوا۔

تازہ ترین