• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں امن و آشتی کے خواہاں ہر شخص کے لیے یہ یقیناً ایک اچھی خبر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں قیامِ امن اور امریکی فوج کی واپسی کے لیے طالبان سے جاری جن مذاکرات کو پچھلے مہینے عین حتمی مرحلے تک پہنچ جانے کے بعد اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے اچانک ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، محض چھ ہفتوں کے اندر اُن کی ازسرنو بحالی کے لیے امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر گزشتہ روز افغان دارالحکومت کابل پہنچے ہیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اتوار کو صحافیوں سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ مقصد اب بھی یہی ہے کہ کسی نکتے پر امن معاہدہ یا سیاسی معاہدہ ہو جائے جو آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے۔ اس موقع پر مارک ایسپر نے ایسے معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہونے کی امید کا اظہار کیا جو امریکی افواج کی واپسی اور دیگر امریکی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ثابت ہو۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ قطر میں جاری مذاکرات کے حتمی مرحلے میں معاہدہ تحریر کیا جا چکا تھا اس پر صرف فریقین کے دستخط باقی تھے اور اس کے لیے طالبان کے نمائندوں اور افغان صدر اشرف غنی کا واشنگٹن جانا طے پاچکا تھا تاہم صدر ٹرمپ نے مذاکرات کی قطعی یک طرفہ اور بالکل یکایک منسوخی کے دو دن بعد دس ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں اخبار نویسوں سے گفتگو میں یہاں تک دعویٰ کیا تھا کہ ’’میرے نزدیک یہ مذاکرات اب مردہ ہو چکے ہیں‘‘ گویا ان کی ازسرنو بحالی کے ہر امکان کو انہوں نے کلیتاً مسترد کردیا تھا۔ امریکی صدر کا یہ فیصلہ جہاں پوری دنیا کے امن پسند لوگوں کے لیے مایوسی کا باعث بنا تھا وہیں اس اقدام پر طالبان ترجمان کا تبصرہ یہ تھا کہ مذاکرات کی منسوخی سے امریکہ کو پہلے سے زیادہ نقصان پہنچے گا اور ہمیں یقین ہے کہ امریکی مذاکرات کے لیے واپس آئیں گے۔ حیرت انگیز طور پر یہ پیشین گوئی ڈیڑھ ماہ کے اندر ہی پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔ اہلِ بصیرت کے لیے اس صورتحال میں بلاشبہ بڑی نشانیاں ہیں۔

تازہ ترین