• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے قانونی‘ آئینی اور جغرافیائی حقوق کے خلاف جارحیت جاری کیوں ہے۔ اس سلسلے میں کچھ عرصے سے کافی کچھ ہورہا ہے جس کے بارے میں ہلکے انداز میں ہی سہی،اپنے کالموں میں نہ فقط ذکر کرتا رہا ہوں مگر اس قسم کے اندیشے بھی ریکارڈ پر لاتا رہا ہوں کہ اگر یہ منفی اقدامات ختم نہ ہوئے تو شایدسندھ کے لوگ کوئی ایسی راہ اپنانے پر مجبور نہ ہوجائیں جو کسی کے بھی مفاد میں نہ ہو۔

اس کالم میں‘ میں فی الحال ان ایشوز کا ذکر کرتا ہوں جو گزشتہ دنوں منظر عام پر آئے ہیں۔ مثال کے طور پر چند دن پہلے سندھ کے وزیر زراعت اسماعیل راہو کا ایک بیان سامنے آیا کہ وفاق کراچی کے سمندری جزیروں میں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئے شہر تعمیر کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔

اس سلسلے میں سندھ کے وزیر زراعت نے انتہائی سخت الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ہم ان جزیروں پر وفاق کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے،وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر سندھ کی سمندری حدود میں کوئی بھی شہر تعمیر نہیں کرسکتی‘‘۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے جزیرے بھنڈار پر نئے شہر تعمیر کرنے والے فیصلے پر سندھ کو اعتماد میں نہیں لیا۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سندھ کی سمندری بیلٹ وفاق نہیں سندھ کی ملکیت ہےاور وفاقی حکومت 18 ویں ترمیم کے بعد کسی بھی صوبے کے وسائل اور کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتی۔

انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ’’انصاف لنگر‘‘ پر ہی کام کرے۔ صوبائی وزیر نے الزام لگایا کہ وفاقی حکومت ڈکٹیٹر مشرف کی طرح سندھ کو کمزور کرنے کی سازش کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کی املاک پر قبضے کا سوچنے سے بہتر ہے کہ نوجوانوں کو ملازمتیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’تبدیلی سرکار‘‘ مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے‘ سندھ کی زمینیں ’’تباہ‘‘ کرنے نہیں دیں گے۔

واضح رہے کہ سندھ کی سول سوسائٹی خاص طور پر نوجوان اور قوم پرست تنظیمیں پہلے ہی وفاقی حکومت کی طرف سے کیے گئے یا کیے جانے والے ایسے دیگر اقدامات کی وجہ سے سخت مشتعل ہیں۔

مثال کے طور پر اس سے پہلے حکمران پارٹی کے کئی رہنمائوں اور عہدیداروں کی طرف سے 18 ویں ترمیم ختم کرنے کی بات کی گئی یا سندھ میں منتخب حکومت کو ختم کرکے گورنر راج قائم کرنے کے سلسلے میں سرگرمیاں کی گئیں‘

اسی دوران ایم کیو ایم کے ذریعے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا گیا کہ سندھ کی صوبائی حدود ختم کی جائیں‘ خاص طور پر اس’’منفی پیشرفت‘‘ کا سندھ میں شدید ردعمل ہوا ہے۔ مختلف قوم پرست تنظیموں اور پی پی کی طرف سے سندھ بھر میں شہر شہر احتجاجی جلوس نکالے گئے اور دھرنے دیئے گئے‘ اسی قسم کے جلوس اور دھرنے کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں بھی کئے گئے۔

اطلاعات کے مطابق نہ فقط سندھ ترقی پسند پارٹی ایک دو ہفتوں کے اندر کراچی میں جلوس نکالنے والی ہے مگر کچھ سندھ کی دیگر قوم پرست تنظیمیں بھی آئندہ ایک دو ہفتوں میں کراچی میں دھرنے دینے اور جلوس نکالنے والی ہیں ۔

سندھ کے عوام کو تو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ کراچی پورٹ اور قاسم پورٹ جو درحقیقت سندھ کی ملکیت ہیں مرکز کی تحویل میں کیوں دیئے گئے۔ شاید جلد سندھ کے اندر سندھ اور مرکزی سیاسی قیادت پر اس مطالبہ کے تحت دبائو بڑھ جائے کہ سندھ اور بلوچستان کے پورٹ متعلقہ صوبوں کے حوالے کرنے کے لئے آئین میں فوری طور پر ترمیم کی جائے۔

سندھ کے سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ نہ فقط سندھ کے سمندر‘ جزیرے مگر سمندری بندرگاہ صدیوں سے سندھ کی ملکیت رہے ہیں‘ انگریزوں نے بھی کبھی سندھ کی ان پورٹس اور سمندری جزیروں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی‘ سندھ کے عوام حکمرانوں سے سوال کررہے ہیں کہ آج آپ کو سندھ کے ایک اہم سمندری جزیرے پر قبضہ کرنے کا خیال آیا مگر ان جزیروں پر جو انسان رہتے ہیں ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کا کبھی خیال آیا؟

دیگر سہولتیں تو چھوڑیں کیا ان کو پینے کا پانی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی؟ سندھ کے کئی سیاسی رہنمائوں اور دانشوروں نے مجھ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب شاید سندھ کے لوگوں کو کراچی پورٹ‘ قاسم پورٹ اور ان سمندری جزیروں پر جاکر دھرنا دینا پڑے گا۔

سندھ کے عوام اس بات کو بھی نہیں بھولے کہ مرکز سندھ کے سارے سمندری بیلٹ پر قبضہ کرکے اسے سندھ کی تحویل سے نکال کر وہاں مرکز کے تحت ایک الگ ریاست بنانا چاہتا ہے۔

ایسا اندیشہ بلوچستان کے قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل بھی کئی بار ظاہر کرچکے ہیں۔ اتوار 13 اکتوبر کے کچھ اخبارات میں سردار اختر مینگل کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال کے دوران ان کے 5 مطالبات میں سے ایک مطالبہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔

انہوں نے یہ شکایت کی کہ بلوچستان میں لوگ اب بھی لاپتہ ہورہے ہیں‘ لوگوں کے لاپتہ ہونے کے بارے میں سندھ کو بھی شکایات ہیںیہ اور بات ہے کہ کسی بھی صاحب اقتدار کو سندھ کے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی کی پروا نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین