• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے11 فروری کو شکاگو شہر میں اپیلیں سننے کی اعلیٰ عدالت سیونتھ سرکٹ نے ایک پاکستانی شہری اور مسلم لیگ نون کے کارکن اور اس کے اہل خانہ کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کئے جانے کے خلاف اپیل کو منظور کرتے ہوئے ستائیس صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا ہے۔ ہمیں تو اس سے کچھ روز قبل پاکستانی میڈیا پر میٹرو بسوں کی دھوم دھڑکوں والی پبلسٹی کے پیچھے لاہور میں اپنے قانونی مطالبات کے حق میں احتجاجی کیمپ پر بیٹھے ڈاکٹروں پر ہونے والی پولیس کی یلغار دیکھ کر اس کا ادراک پہلے ہی ہوچکا تھا کہ بیش بہا ڈیزائن کے سوٹوں اور جیکٹوں میں ہوتے ہوئے بھی نہ فقط پاکستان کے حکمران برہنہ ہیں بلکہ پنجاب کو تو نئے اوڈوائر مل گئے ہیں لیکن اب وہ مبینہ مظالم جن کی بازگشت امریکی عدالتوں میں نہ فقط اپیل گزار پاکستانی شہری غلام مصطفی کی زبانی سنی گئی بلکہ اسکے مدعے پر انتہائی فاضل امریکی ججوں نے اپنے تازہ فیصلے میں باربار تجزیہ اور بحث کی ہے کہ جس کو پڑھ کر پاکستان کے ماضی قریب کے حکمرانوں کے ظالمانہ اور اوچھے ہتھکنڈوں کا پتہ پڑتا ہے۔ یہ بھی کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے اس کارکن کو اپنے سابق باس اور اپنی پارٹی کے حامیوں سے خطرہ ہے۔
امریکہ کی ریاست الینوائے میں اپیلیں سننے والی یونائٹیڈ اسٹیٹس کورٹ آف اپیل سیونتھ سرکٹ میں غلام مصطفی اور ان کے اہل خانہ (ان کی اہلیہ اور تین بیٹے ترتیب وار عمریں اٹھارہ،سولہ اور چودہ جبکہ سوائے ان کے ایک چار سالہ بیٹے جو امریکہ میں پیدا ہونے کے سبب امریکی شہری ہے) کی طرف سے داخل کردہ اپیل سننے والے تین ججوں (جن میں جسٹس پوسنر تو فیصلوں کی وجہ سے امریکہ بھر میں شہرت رکھتے ہیں) نے درخواست گزار کے ان دعووں کو قابل اعتبار ماناہے کہ ماضی میں مشرف فوجی حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں تشدد کے دھمکیوں کے بعد احتساب کے حوالے سے شہرت پانے والی ایک شخصیت اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف معلومات دینے کے سبب اسے اور اس کے اہل خانہ کو اس شخصیت اس کے کارندے اورمسلم لیگ نواز شریف کے حامی انتقام کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ امریکی عدالتی دستاویزات میں غلام مصطفی نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ شخصیت کی کمپنی کے مالی معاملات کے علاوہ مشرف حکومت نے اس سے بعض مبینہ نجی تعلقات سے متعلق سوالات بھی کئے جس پر اس نے کہا کہ وہ کسی کی نجی زندگی کے بارے میں جوابات نہیں دے سکتا۔ غلام مصطفی کہتا ہے کہ اس کے اس انکار پر مشرف حکومت نے اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کی دھمکی دی جس پر اس نے سوچا کہ اگر اس نے انکار کیا تو اس کے گھر والوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے وہ حکومت کے ایسے سوالات کے جوابات دینے پر راضی ہوگیا۔
مصطفی کہتا ہے کہ جب حکومتی عملدار اس کے جوابات سے مطمئن ہوگئے تو اس کا نام ای اسی ایل سے ہٹادیا گیا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ امریکی اعلیٰ عدالت کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان میں آئندہ آنے والے انتخابات کے پس منظر میں ملک میں آئین کے فقرے باسٹھ اور تریسٹھ پر بحث جاری ہے کہ کون ”فرشتہ“ انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ شاید امریکی عوام کو یہ بات اچنبھے کی لگے لیکن جو لوگ پاکستان میں سول یا فوجی،وڈیروں اور حکمرانوں کے کرتوتوں سے واقف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ حکمران اپنے مخالفوں کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ نہ فقط ماضی قریب کے حکمرانوں پر موجودہ زرداری حکومت کے خلاف بھی مسلم لیگ نون کے اس کارکن غلام مصطفی نے مدعا اختیار کیا ہے کہ ماضی میں خود صدر زرداری اس شخصیت کے حکم پر دوران قید بدترین ریاستی سلوک اور تشدد کے شکار ہونے کی وجہ سے غلام مصطفی سے اس شخصیت کے خلاف معلومات حاصل کرنے کیلئے پاکستان واپسی پر اس او ران کے اہل خانہ پر تشدد کروا سکتے ہیں لیکن امریکی اعلیٰ عدالت کے ججوں نے غلام مصطفی کے ایسے مستقبل کے خوف والے مدعے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ موجودہ زرداری حکومت کی طرف سے اپنے سیاسی مخالفین کو جیل میں رکھنے اور تشدد کروانے کے شواہد نہیں ملتے جبکہ غلام مصطفی کی معلوماتی مہارت اس شخصیت کے مالی معاملات کی کرپشن پر ہے نہ کہ قتل کی تفتیش کے متعلق۔ کاش امریکی ججوں کو سندھ میں نوابشاہ اور مورو، لاڑکانہ، دادو، خیرپور میں پی پی پی مخالفین کے ساتھ مائیکرو لیول کی سیاسی انتقامی کارروائیوں کا پتہ ہوتا۔ بہرحال امریکی ججوں نے اور غلام مصطفی کے حق میں حلف نامہ داخل کرنے والی امریکی وکیل اور بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر کیرن پارکر جس نے پاکستان کی سیاست پر بھی کچھ عرصہ پاکستان میں رہ کر تحقیق کی ہے نے بھی توثیق کی ہے کہ کس طرح پاکستان میں حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنوانے کیلئے بدمعاشوں اور ریاستی اداروں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔
شکاگو کی سیونتھ سرکٹ کورٹ کے فیصلے کی دستاویز کے مطابق بیالیس سالہ پاکستانی شہری غلام مصطفی جو کہ پاکستان مسلم لیگ نواز شریف کے رکن اورمذکورہ شخصیت کی کمپنی کے سابق افسر تعلقات عامہ ہیں نے امریکی ریاست الینوائے میں یونائٹیڈ اسٹیٹس کورٹ آف اپیل سیونتھ ڈسٹرکٹ میں اپنی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کئے جانے کے خلاف ایک اپیل غلام مصطفی و دیگران بنام اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کے نام سے دائر کی۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق غلام مصطفی نے امریکی امیگریشن جج کی عدالت میں سیاسی پناہ کی درخواست داخل کی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ اسے یقین ہے کہ اس کو اور اس کے اہل خانہ کو پاکستان واپسی پر نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ انہوں نے اپنے سابق باس کے خلاف ان کی مخالف مشرف حکومت کو ان کے مالی لین دین کے متعلق معلومات فراہم کی تھی جو کہ ان سے زبردستی حاصل کی گئی تھی۔
بیالیس سالہ پاکستانی شہری غلام مصطفی اپنی فیملی کے ہمراہ نومبر دو ہزار تین میں امریکہ میں نان امیگرنٹ وزٹرز یا تفریحی ویزہ پر داخل ہوا تھا۔ غلام مصطفی کے ویزہ کی میعاد ختم ہونے میں ابھی دو دن باقی تھے کہ انہوں نے ستائیس مارچ دو ہزار چار کو اپنے اہل خانہ کی طرف سے سیاسی پناہ کی درخواست دائر کردی۔ اپنی سیاسی پناہ کی درخواست میں غلام مصطفی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ انیس سو اٹھاسی میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ گریجویشن کرنے کے بعد وہ ابوظہبی چلے گے جہاں انہیں انیس سو چھیانوے میں مذکورہ شخصیت کی تعمیراتی کمپنی میں افسر تعلقات عامہ کی ملازمت مل گئی۔ بقول غلام مصطفی کے کمپنی میں روزمرہ کے کاموں اور ملازموں سے تعلقات عامہ کے علاوہ ان کے فرائض میں اپنے باس کی رقوم کی متعدد منتقلیوں میں مدد کرنا بھی شامل تھا۔ غلام مصطفی کے دعوے کے مطابق ان میں ایک بڑی منتقلی وہ بھی تھی جس میں اپنے باس کے حکم پر اس نے ایک کروڑ اسی لاکھ ڈالر اقساط میں نیویارک کے ایک بنک سے پہلے نیویارک میں ایک دوسرے سے بنک میں اور پھر سے ابوظہبی منتقل کئے تھے۔ انیس سوستانوے کے انتخابات میں نواز شریف کی پارٹی بطور ان کے وزیر اعظم کے پارلیمان میں جیت کر آئی تواس کے باس سینٹر منتخب ہوئے اور پھر قومی احتساب بیورو کے سربراہ بنے۔بقول غلام مصطفی انتخابات کے بعد اس کے باس نے اسے بتایا تھا کہ کمپنی میں اس کی (غلام مصطفی کی) تمام ٹیلیفون گفتگو خفیہ ایجنسی والے سن رہے ہیں اور اس کی نگرانی کر رہے ہیں کیونکہ یہ ان کی نیب کے متعلق تفتیش کا حصہ ہے۔ غلام مصطفی نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اپنے باس کی ایسی گفتگو کے بعد وہ کہیں اور نوکری تلاش کرنے لگا اور انیس سو اٹھانوے میں اس نے کمپنی چھوڑ دی۔
سیونتھ سرکٹ کورٹ کے فیصلے میں تفصیل سے ذکر ہے کہ انیس سو نناوے میں پرویز مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کی حکومت برطرف کردی گئی۔ بقول غلام مصطفی سال دوہزار کی شروعات میں پرویز مشرف کی انٹیلی جنس والوں نے ابوظہبی میں اس سے رابطہ کیا اور کہا کہ نواز شریف کے خلاف اس کا تعاون درکار ہے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں وہ خود کو مصیبت میں ڈالے گا اور پاکستان میں بھی اس کے خاندان والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ اس دھمکی کے بعد غلام مصطفی پرویز مشرف کے جاسوسی ہرکاروں کے ساتھ کمپنی کے مالی امور کے متعلق معلومات فراہم کرنے پر راضی ہوگیا۔ وہ اگست دو ہزار میں اپنے وعدے کے مطابق مشرف حکومت کی اپنے باس کے خلاف ہونے والی تحقیقات میں مزید معلومات فراہم کرنے پاکستان آیا۔ غلام مصطفی نے اپنی دعوے میں کہا ہے اس سے زبردستی حاصل کی گئی معلومات ہی کی بنیاد پراس کے باس کو کرپشن کے مقدمات میں چودہ سال کی سزائے قید ہوئی لیکن بعد میں وہ مشرف حکومت کے ساتھ مُک مُکا کر کے جیل سے باہر آگئے (بقول غلام مصطفی اب وہ قطر میں ہیں)۔ وہ کہتا ہے کہ وہ دبئی چلا آیا لیکن سابق باس کے کارندوں، ان کے بھائی اور خودسابق باس کی طرف سے اس کو، ان کے خلاف مشرف حکومت سے تعاون کرنے پر لاہور اور دبئی میں دھمکیاں ملتی رہیں۔ دو بار دبئی میں اس کی کار پر دونوں اطراف سے ٹرکوں سے گھیر کر ٹکر مارنے کی کوشش کی گئی۔ لاہور میں ایک بار اس کی کار روک کر ان پر حملہ ہوا جس میں وہ شدید زخمی ہوا۔ غلام مصطفی کے سر کے زخموں اور یادداشت کی کھو جانے کے علاج کا امریکہ کے اسپتال میں علاج کا ریکارڈ اور ڈاکٹروں کی رپورٹیں بھی ان کی سیاسی پناہ کی درخواست میں شامل ہیں۔ ماضی میں تشدد اور ریاستی جبر کا شکار ہونے والے غلام مصطفی کا کہنا ہے انہیں یقین ہے کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو واپسی پر سابق باس اور ان کے حامیوں اور کارندوں سے خطرہ لاحق ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس نے ان کے ساتھ غداری کی ہے۔
تازہ ترین