• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ میرے لئے ایک غیر معمولی اور انوکھا تجربہ ہے کہ میں خاصی دیر سے قلم پکڑے بیٹھا ہوں لیکن یوں لگتا ہے جیسے الفاظ کے سوتے خشک ہوگئے ہیں اور قلم لکھنے سے عاری ہے۔ آج لاہور میں کئی دن کے ابرآلود موسم اور دھند کے بعد سورج چمکا ہے۔ مجھے ایسا موسم بہت پسند ہے اور ایسے موسم میں میری طبیعت کھل اٹھتی ہے لیکن خلاف معمول طبیعت بوجھل اور دل اداس ہے بقول ناصر کاظمی
دل تو اپنا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ایک طرف بے شمار سیاسی موضوعات اور انتخابی موسم کی ا ٓمد کے مناظر ہاتھ باندھے کھڑے ہیں کہ میں ان میں سے کسی کو بھی طبع آزمائی کے لئے منتخب کرلوں ۔ دوسری طرف ذہین پر صدمات ،ظلم، بے انصافی اور بے بسی کے ایسے مناظر ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں کہ شدت غم سے قلم چلتا ہی نہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری اور اہل تشیع کو جس طرح ظلم و ستم ،بربریت اور قتل و غارت کانشانہ بنایا جارہا ہے اس نے مجھے ذہنی طور پر ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا کررکھا ہے۔ مجھے بار بار خیال آرہا ہے کہ لوگ بھوک و افلاس تو برداشت کرلیتے ہیں لیکن ظلم و بے انصافی نہیں۔ معاشرے معاشی پسماندگی تو سہہ لیتے ہیں لیکن ہمہ وقت پیچھا کرتا ہوا موت کا خوف نہیں۔ حکومت عوام کو روٹی نہ بھی دے سکے تو لوگ اسے برداشت کرلیں گے لیکن اگر حکومت جان و مال کا تحفظ نہ دے سکے اور انصاف مہیا نہ کرسکے تو اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران بلوچستان میں ہزارہ قبیلہ کے افراد کو جس طرح نشانہ بنا کر مارا جارہا ہے ہماری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہم بے بس شہری اور بے بس ا ہل قلم ان کے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتے لیکن ان کا غم تو محسوس کرسکتے ہیں اور ان سے اظہار ہمدردی تو کرسکتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ جس گھر سے جنازے اٹھ رہے ہوں،جس بیوی کا سہاگ لٹ چکا ہو،جس ماں کی گود خالی ہوچکی ہو اور جس باپ کا جواں سال بیٹا ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکا ہو اس کے زخموں پر الفاظ کا مرہم کارگر نہیں ہوتا لیکن کیا کیجئے کہ مجھ جیسے بے بس اہل اظہار کے پاس الفاظ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ چند برس قبل کراچی میں اسی طرح خون بہا تو ہندوستانی سفیر نے طعنہ دیا تھا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں اتنے مسلمان نہیں مرتے جتنے پاکستان میں فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ افسوس! یہ تازیانہ بھی ہمیں جگا نہ سکا۔نہ جانے کیوں ہم اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے کے درپے ہیں اور ہمارے دل اتنے سنگدل ہوگئے ہیں کہ ہمیں انسانی خون بہانے میں کوئی رکاوٹ ہی محسوس نہیں ہوتی۔ انصاف، حکومت، انتظامی مشینری، جمہوریت کے حسن اور قیادت کا کیا رونا روئیں کہ بار بار یہ حادثات ہورہے ہیں لیکن حکومت آج تک نہ مجرموں کو پکڑ سکی ہے اور نہ ہی اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے موثر انتظامات کرسکی ہے۔ گزشتہ ماہ کوئٹہ میں اسی طرح ہزارہ قبیلہ کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ چار دن تک لوگ لاشیں رکھے احتجاج کرتے رہے، چنانچہ گورنر راج لگا ا ور وزیر اعلیٰ کو گھر بھیج دیا گیا ۔توقع تھی کہ اب کچھ بہتر فیصلے اور اقدامات ہونگے لیکن نتیجہ پرسوں کا سانحہ ہے جس میں سو کے لگ بھگ شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔اب لوگ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ ہمارے حکمران جمہوریت کے حسن کے نغمے الاپ رہے ہیں۔ جمہوریت اتنی ہی حسین ہوتی تو کوئٹہ اور کراچی کے لوگ ببانگ دہل فوج سے پناہ کیوں مانگتے؟لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور زندگی مانگتے ہیں۔ جب جمہوریت عوام کو زندگی دینے میں ناکام ہوجائے تو ان کے لئے جمہوریت کا حسن کشش کھو بیٹھتا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ نظام بذات خودبے جان شے ہوتی ہے ۔اسے جاندار ،متحرک اور موثر نظام چلانے والے بناتے ہیں ،جب کوئی بہترین سے بہترین نظام بھی نالائق اور کرپٹ قیادت کے ہتھے چڑھ جائے تو ناکامی اور نامرادی اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ اب اس سے زیادہ نالائقی اور ناکامی کیا ہوگی کہ کوئٹہ میں قیامت برپا کرنے والا بارودی ٹرک کئی چیک پوسٹوں سے گزر کر اپنے ہدف اور مارکیٹ میں پہنچا۔ کسی نے روکا نہ کسی نے تلاشی لینے یا چیک کرنے کی زحمت گوارہ کی۔ کیا چیک پوسٹوں اور ان راہوں پر کھڑا سٹاف اس سازش کا حصہ تھا؟یا پھر اس قدر نالائق کے اپنے فرائض سرانجام نہ دے سکا۔ خود کش حملے کی سازش یہیں، کہیں تیار ہوئی، پھر اس کے لئے سامان مہیا کیا گیا پھر وقت اور جگہ کا تعین کیا گیا۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں(سول اور ملٹری دونوں) کہاں تھیں کہ وہ سازش کی بو نہ سونگھ سکیں۔ صوبائی اور مرکزی انتظامیہ کیوں تساہل کی نیند سوتی رہیں۔ کیا یہ صرف نااہلی اور نالائقی ہے یہ بدنیتی ہے۔ سوالات سینکڑوں ہیں لیکن یہ سوالات ان خاندانوں کے غم اور دکھ کا مداوہ نہیں کرسکتے جو اس سانحے سے لہولہان ہوچکے ہیں اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے خوف سے زندگی کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ ان کا صبر اور نظم قابل دید اور سبق آموز ہے لیکن جب دور دراز تک انصاف ملنے کے نشانات موجود نہ ہوں تو آخر انسان کب تک صبر کرے گا اور کب تک انتقام کی آگ پر قابو پائے گا؟ مجھے علم نہیں کہ یہ مذہبی جنگ ہے یا فرقہ واریت کا شاخسانہ، مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی غیر ملکی سازش ہے یا کوئی ملک دشمن قوت بلوچستان میں علیحدگی کی آگ بھڑکا رہی ہے، یہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی ہے یا جمہوریت کو ناکام بنانے کی سازش یا پھر یہ ان مافیاز کا کھیل ہے جو جائیدادوں اور قیمتی زمینوں پر قبضے کرنے کے لئے انسانوں کا خون بہاتے اور خاندان اجاڑتے ہیں۔ یہ جو کچھ بھی ہے حکومت کی منہ بولتی ناکامی اور انتظامیہ کی واضح نالائقی کی خونچکاں داستان ہے۔ کراچی بھی مختلف مافیاز اور طالبان جیسی مذہبی تنظیموں کے سامنے سرنگوں ہوچکا ہے وہاں ایک نہیں لگتا ہے ان گنت گروہ جرائم اور قتل و غارت کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ بلوچستان کی لبریشن موومنٹ اپناکام کررہی ہے اور غیر بلوچیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنارہی ہے جبکہ ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ ایک گہری اور تہہ در تہہ سازش لگتی ہے اگر اس میں کوئی پاکستان دشمن ملک ملوث ہے تو بھی کارندے تو ہمارے ہی ہم وطن ہیں۔ بندوق کسی اور کی سہی کندھے تو ہمارے ہی استعمال ہورہے ہیں۔ حکومت اور حکومتی مشینری ان تک کیوں نہیں پہنچ سکی اور پے در پے حملوں کے باوجود مجرم گرفت میں کیوں نہیں آسکے۔ یہ وہ سوال ہے جو مجھے بے چین اور غمگین رکھتا ہے اور جس کا میرے پاس کوئی منطقی جواب نہیں۔ جب تک اس تہہ در تہہ سازش کے تانے بانے بے نقاب نہیں ہوتے صورتحال کے تجزیے محض اندازوں کا کھیل ہوگا اور بعض اوقات ایسے اندازے معاملات کو سنوارنے کی بجائے الجھا دیتے ہیں۔ میں حالات کے سنوارنے کا منتظر ہوں لیکن جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو حسن ظن اورامیدوں کے چراغ جھلملانے اور”پھڑپھڑانے“ لگتے ہیں۔
تازہ ترین