• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد سجاد رضوی۔۔ ہیلی فیکس
خوشبو کی بات جہاں سے بھی شروع کی جائے ماحول کو معطر کر دیتی ہے۔ ہم یہ بات ایف جی ڈگری کالج کھاریاں کینٹ سے شروع کرتے ہیں۔ میٹرک کا امتحان ہائی فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد یار دوستوں کے مشوروں کے زیر سایہ شماریات، معاشیات اور ریاضی میں داخلے کے لئے اوپر مذکور کالج میں درخواست دے دی اور حسن اتفاق کہیے کہ بغیر کسی کہے کہلائے داخلہ لسٹ میں نام بھی آگیا۔ ہمارے ایک دوست جن کے نمبر کچھ زیادہ نہیں تھے اور انھوں نے ایف اے میں اسلامیات، ہسٹری اور سوکس کا انتخاب کیا تھا میرے شماریات والے ڈپارٹمنٹ میں داخلے پر نالاں تھے اور کچھ نہ سوجھا تو ہمارے چچا جان کے سامنے داستانِ شکایت کچھ اس انداز سے بیان کی کہ ہمارے خواب چکنا چور کر دیئے۔ چچا جان سے کہنے لگے "دیکھئے حضرت ! آپ کا بھتیجا اسلامیات سے کنی کترا رہا ھے آپ خود ثقہ عالمِ دین، پورا گھرانہ دینی رنگ میں رنگا ہوا لیکن سجاد رضوی تو اس طرف آہی نہیں رہا۔ "چچا جان کو ایسے پیرائے میں کہانی سنائی کہ سر شام ہی پیشی آ گئی۔ چچا جان کہ ان کے سامنے بولنے کا کبھی یارا نہ رہا، فرمانے لگے کالج میں کون سے مضمون رکھے، عرض کی شماریات، معاشیات اور ریاضی فرمایا کیا اس میں اسلامیات بھی ہے عرض کیانہیں، حکم ہوا اسلامیات رکھو ساتھ، اب اس ارشاد کے بعد بحث کی گنجائش ناممکن تھی کیوں کہ ان کا کہا ٹالنا کم از کم اس عاجز کے بس میں نہیں تھا۔ ہم نے ڈپارٹمنٹ بدلا اسلامیات، معاشیات اور سیاسیات سے دل لگایا اور پہلے دن کالج میں ناز و ادا کے ساتھ قدم رکھا، اسلامیات اختیاری کا پیریڈ40 کے قریب طلبہ اور پہلا دن، دروازے سے ایک قوی الجثہ بارعب شخصیت داخل ہوئی، رعب دار آواز میں السلام علیکم کہا اور کرسی پر بیٹھ گئے،میرا نام حبیب اللہ خاں بلوچ ہے، آپنا تعارف کروایا،میرے پاس اسلامیات کا مضمون ہے، الله تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں، صرف وہی عبادت کے لائق ہے اور اس کی توحید کا پیغام اس دنیا میں عام کرنے کےلئے جن ہستیوں کا انتخاب خود رب ذوالجلال نے فرمایا وہ انبیاء و رسل کی مقدس ذوات ہیں جن کے سردار اور خاتم الانبیاء و المرسلین سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ پروفیسر حبیب الله کی آواز آداب رسالت اور عظمتِ مصطفیٰ کریمﷺ کا نور تقسیم کررہی تھی اور ہمارا ذہن ان کی ذات کے حوالے سے مکمل اپنائیت و قرب کا سگنل دے چکا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں فاصلے مزید کم ہوگئے اور ان کے اندر کا شفیق صوفی ایک رہنما کی طرح ہمارا سہارا بن گیا۔ ان کے لیکچرز میں اکثر آنحضرت ﷺ کی محبت کا ذکر ہوتا، وہ حقیقی درویش اور صوفی انسان تھے جو اپنے دامن میں رحمت کے پھول لئے نہ صرف ماحول کو معطر کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس دولت سے سرفراز کر دیتے،کالج میں بزم ادب کے سرپرست تھے جب کالج کے اندرونی مقابلہ نعت میں میری پہلی پوزیشن آئی تو مجھے ساتھ لے کر ایف جی سرسید کالج راولپنڈی گئےاور سفر میں ان کے مزید خصائص آشکار ہوئے، جب کالج سے باعزت اعلیٰ نمبروں سے فراغت ہو گئی تو بھی ان سے مسلسل رابطہ رہا،ان کی حیات کے اتنے حسین گوشے ہیں کہ ایک مختصر کالم میں سمیٹنا انتہائی مشکل ہے، المختصر جہاں وہ کالج کے پروفیسر اور مدرس تھے وہیںعبادت گزار، متقی و پرہیزگار درویش و صوفی انسان اور مخلوقِ خدا پر مہربان تھے۔ 2017میں ان سے ملاقات ہوئی تو کافی نحیف پایامگر چہرے پر وہی مسکراہٹ اور لہجے میں جنوبی پنجاب کی مٹھاس تھی،برطانیہ واپس آیا تو چند مرتبہ فون پر رابطہ ہوا،لیکن اچانک ایک اجنبی واٹس اپ نمبر سے پاکستان سے کسی نے پیغام بھیجا کہ آپ سجاد رضوی ہو،جب کنفرم کیآ تو پتہ چلا کہ یہ تو پروفیسر صاحب کی بیٹی ہیں جو ایم فل کر رہی ہیں۔ میں نے فوراً دریافت کیا استاد جی کیسے ہیں،جواب نے پائوں کے نیچے سے زمیں نکال دی، وہ چھ ماہ قبل وفات پا گئے انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ ذہن میں کئی تصویریں آئیں اور محو ہو گئیں،پتہ ہی نہیں چلا کہ کب گال بہنے والے آنسوؤں سے تر ہوگئے، رب تعالیٰ ان کو جنت میں مقام عطا فرمائے، وہ حقیقی معنوں میں فخر آدمیت اور رشک انسانیت تھے۔
تازہ ترین