• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اندوہناک واقعہ اور ایک شدید جھٹکا۔ واقعہ غیرمتوقع، نہ پہلا نہ آخری، ستم گری رہے گی اور نااہلی، توگھر اجڑتے رہیں گے۔ جھٹکا بھی غیرمتوقع، نہ پہلا، شدید بھی شاید نہیں، پچھلے پانچ برسوں میں بار بار یہ کام ہوا، یہ مرحلہ آیا۔ آیا اور گزر گیا، کبھی جلدی کبھی دیر سے، گزر بہرحال گیا۔ ہر بار اپنے ساتھ اعتماد اور یقین کی کچھ تہیں بہا کر لے گیا، اعتماد جھٹکا دینے والوں نے کھویا، یقین ان کے وفا شعاروں کا متزلزل ہوا۔ آفت کوئٹہ پر ٹوٹی، ایک بار پھر۔ انتہاپسندوں نے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا، خون بہایا، گھر اجاڑے، دہشت پھیلائی، اپنے مذموم مقاصد پورے کئے۔ علمدار روڈ پر بھی ایسی ہی آفت ٹوٹی تھی، ابھی گزشتہ ماہ،ایسے ہی بے گناہ نشانہ بنے تھے، یوں ہی دہشت پھیلائی گئی تھی۔ ان کا چہلم ابھی ہوا بھی نہ تھا کہ بدقسمت شہر پھر خون میں نہلادیا گیا۔ ذمہ دار کون ہے؟ وہ نہیں جو ذمہ داری قبول کرتے ہیں، واردات کے بعد، وہ تو اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہیں ، چہ بوالعجبی، اسے ذمہ داری قبول کرنا کہا جاتا ہے۔ ذمہ دار تو قانون کے رکھوالے ہیں، خفیہ ادارے ہیں، سیاست گر ہیں کہ سیاسی رہنما یہاں کون ہے؟رہبری یہ کہاں کرتے ہیں کہ انہیں رہنما کہا جائے۔ یہ سیاسی ضرورتیں ہیں اور عجلت میں کئے گئے ان کے فیصلے، عاقبت نااندیش۔علمدار روڈ پر دھماکہ کیا گیا، ملزمان تو پکڑے نہیں گئے، پکڑے جاتے ہی نہیں۔ احتجاج البتہ ہوا، جائز ہوا۔ جن کے لواحقین کا خون بہے گا وہ احتجاج تو کریں گے، سودھرنا دیا گیا اور مطالبات کئے گئے۔تین دن تک، عورتیں اور بچّے بھی شدید سردی میں سڑک پر بیٹھے رہے، مرحومین کی لاشیں بھی رکھی رہیں ،دفن نہیں کی گئیں۔ تین دن بعد مطالبات مان لئے گئے، پہلے ہی دن مانے جاسکتے تھے ۔ حکمرانوں کو عقل مگر دیر سے آتی ہے۔
بلوچستان کی حکومت برطرف کردی گئی۔ وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی وطن میں تھے ہی نہیں۔ ان کے صوبے پر قیامت ٹوٹی تھی، وہ ملک سے باہر تھے۔ انہیں جلد واپس آنے کی شاید کوئی خواہش بھی نہیں تھی۔ عوام سے کسی کو کب دلچسپی تھی، اب کیوں ہوتی۔ حکومت برطرف کرنے پر تاہم انہوں نے برہمی کا اظہار ضرور کیا، کرنا بھی چاہئے تھا، اقتدار سے محرومی کسے برداشت ہوتی ہے۔ وہ فارغ ہوگئے، گورنر راج نافذ ہوگیا۔ دھرنا ختم ہوا، لاشیں سپردِخاک کردی گئیں۔ عواقب پر مگر کسی نے سوچا؟ کوئی غوروفکر؟بات ہوئی بھی تو بس گفتگو تک۔کیا حکومت برطرف کرنے سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی؟اگر گورنر راج میں پھر ستم ڈھایا گیا تو کیا ہوگا؟ وزیر اعلیٰ کی نااہلی مسلّم، مگر حکومت کی برطرفی کیا اس سنگین مسئلے کا حل ہے؟ یہ وزیراعلیٰ اور ان کے حالیوں موالیوں، وزیروں کو سزا تو ہوسکتی ہے، جائز بھی اور ضروری بھی شاید ہو۔ مگر سوال اور تھا،کیا اب دہشت گردی نہیں ہوگی؟ گورنر راج سے حالات میں کیا بنیادی تبدیلی آئے گی کہ انتہا پسندوں کا ہاتھ پکڑا جا سکے گا؟ انہیں قانون کی گرفت میں لایا جا سکے گا؟ ان کا سر کچلا جا سکے گا؟ کسی نے سوچا نہیں۔ ان باتوں پر توجہ ہی نہیں دی گئی جو ضروری تھیں۔ خفیہ اداروں کی کارکردگی پر اُس وقت کوئی سوال نہیں اٹھا، اب اٹھ رہا ہے۔ گورنر راج کو نافذ ہوئے37 دن ہوئے تھے کہ دہشت گردوں نے پھر کارروائی کرڈالی۔ گورنر ذوالفقار مگسی کہتے ہیں خفیہ اداروں کی ناکامی ہے۔ یہ نہیں بتاتے نہ ان سے کوئی پوچھتا ہے اب اصل ذمہ داری کس کی ہے؟ حکومت تو اب ہے نہیں، برطرف ہوگئی، اب تو گورنر راج ہے ۔ اس راج میں ذمہ دار کون ہوتا ہے؟اب کسے برطرف کیا جائے گا؟
بلوچستان اور خصوصاً کوئٹہ کی صورتحال بہت سنجیدہ غوروفکر کا تقاضہ کرتی ہے اور اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ اقدامات کا۔ کسی حکومت کی برطرفی پہلے مسئلہ کا حل تھی نہ اب۔ مسئلہ گمبھیر ہے، بہت گمبھیر۔ یہ اس لئے اور بھی سنگین ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی ذمہ داری فرنٹیئر کور کے پاس ہے۔ یہ فوج کا ایک ادارہ ہے، یہ ادارہ کیوں ناکام ہے؟ سوچنے کی بات یہ ہے اور سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جس صوبے میں فوج آپریشن کررہی ہو، اس کے متعدد ادارے موجود ہوں وہاں ان وارداتوں کا پتہ کیوں نہیں چل پاتا؟اور یہ بھی کہ حکومت کی برطرفی کیا مسئلے کا حل تھی؟ حکومت امن و امان قائم رکھنے میں ناکام رہی تھی، اس میں کوئی شبہ نہیں، وہ برطرف ہوگئی مگر دہشت گردی رکی نہیں۔ وہ کوئی درست فیصلہ نہ تھا، موثر بھی نہیں، بے مقصد البتہ، کہ لوگوں کی جان تو پھر بھی بچائی نہ جا سکی۔ اُس وقت بھی اِس بات پر غور کرنا چاہئے تھا اور اب بھی کہ جو اقدامات کئے جائیں وہ سیاسی نہ ہوں، عملی ہوں۔ مطالبات اپنی جگہ کہ مظلوموں کو اپنی بات کہنے کا حق ہے اور وہ سنی بھی جائے مگر مقصد انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنا ہے، صوبے کو عموماً اور شہر کو خصوصاً دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا ہے، اقدامات اس مقصد کو سامنے رکھ کر ہوں گے تو حالات سنبھالے جا سکیں گے۔ اب کوئٹہ فوج کے حوالے کرنے کی بات ہورہی ہے اگر اسے فوج کے حوالے کردیا گیا تو کیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوجائیں گے؟ فوج بلوچستان کے مسئلے کا حل ہے؟ یہاں پہلے بھی فوج کشی ہوئی، آج تک اس کی مذمت ہی کی جاتی ہے۔ بلوچستان جیسے حساس علاقے میں جہاںآ س پاس کی طاقتیں سازشوں میں مصروف ہیں، فوج کو الجھانا ملک کے مفاد میں ہوگا؟آئندہ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت حکومت کو سیاسی ضرورتوں اور تعجیل سے گریز کرنا ہوگا۔صورتحال ادھر سندھ میں بھی کوئی بہتر نہیں ہے۔ اس کے سب سے بڑے شہر میں روزانہ دس بارہ لاشیں گرنا اب تکلیف دہ معمول سابن گیا ہے اور یہاں بھی معاملات حل کرنے کی بجائے سیاست گری اور عجلت سے کام لیا جا رہا ہے، لگتا تو ایسا ہی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) کئی مرتبہ حکومت سے الگ ہوچکی ہے یا الگ ہونے کی دھمکی دیتی رہی، دعوے کرتی رہی۔ الگ ہوئی پھر شامل ہوئی۔ یہ باشعور لوگوں کی جماعت ہے، اس کے نمایاں افراد سوچ سمجھ رکھنے والے ہیں۔ اس کے حامی بھی نسبتاً پڑھے لکھوں میں شمار ہوتے ہیں، تناسب وہی ہوگا جو ملک کا ہے یا شاید زیادہ ہو۔
ایک بروقت سوال ہے، کیا کبھی اس کے رہنماوٴں نے نفع نقصان کا حساب کیا؟ہر بار حکومت چھوڑنے کی دھمکی اور پھر واپسی سے انہوں نے کھویا زیادہ یا پایا زیادہ؟لگتا ہے یہ حساب کتاب کم ہی ہوا۔ پانچ برس بعد اب پھر وہ حکومت سے الگ ہوگئی ہے، اس بار شاید حتمی طور پر۔ باتیں تو ہونی ہیں، ہوئیں، ہوں گی۔ جو وجوہات تراشی گئیں وہ پہلے بھی بیان ہوئی تھیں، ان پر سوال جواب ہوں گے ایم کیو ایم کے قائدین کو تیار رہنا چاہئے۔ یہ ان کی اپنی ساکھ کا معاملہ ہے۔ اس کے حامیوں کاقیادت پر یقین کا معاملہ ہے۔ اعتراض کرنے والے بہت، ان کی بات میں وزن بھی۔ اندیشوں کا اظہار تو کیا گیا تھا۔ عبوری حکومت کے قیام کے قریب ایم کیو ایم حزب اختلاف میں بیٹھی ہوگی۔
یوں پانچ سال تک حکومت کے ساتھ رہنے کے بعد اب وہ مخالف نشستوں پر بیٹھ کر حکومت کا ساتھ دے گی۔ عبوری نظام کے لئے حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق درکار ہوگا، دونوں مل کر یہ نظام تشکیل دیں گے۔
ایم کیو ایم اس سے اتفاق نہیں کرتی مگر اسے زبانی کلامی تردید سے زیادہ اقدام کرنے ہوں گے۔ مشکل تو ہے مگر یہ ہے ضروری۔ ایم کیو ایم کو اپنا اعتماد قائم رکھنے کے لئے قربانی دینا ہوگی،ایثار کرنا ہوگا۔ اگر معاملات وہی ہیں جو اس کے رہنما بیان کررہے ہیں تو ان کے کچھ تقاضے ہیں۔ ان الزامات کی تردید کرنا ہوگی جو اس پر لگائے جارہے ہیں، عملی تردید، زبانی نہیں۔ اسے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے عہدے کی قربانی دینا ہوگی۔ درست کہ حزب اختلاف کی بڑی جماعت ہی کا رکن قائد ہوتا ہے مگر ضروری نہیں ہے، کوئی آئینی پابندی بھی شاید نہیں۔ ایم کیو ایم حزب اختلاف میں شامل ہو سیاسی بصیرت کا ثبوت دے، کسی اور جماعت کے رکن کو قائد حزب اختلاف منتخب کرائے۔ یہ اس کے حق میں ہر لحاظ سے بہت بہتر ہوگا، عہدہ اور نشستیں تو آتی جاتی رہتی ہیں، اصل قوت تو اعتماد اور یقین ہے، اپنا اعتماد، اپنی ساکھ اور اپنے حامیوں کا یقین۔
تازہ ترین